نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علاّمہ سیمابؔ اکبرآبادی کی 72 ویں برسی ہے

31 جنوری

*آج علاّمہ سیمابؔ اکبرآبادی کی 72 ویں برسی ہے*

سیماب اکبرآبادی (شیخ عاشق حسین صدیقی) کا شمار اردو کے ممتاز اساتذۂ سخن میں ہوتا ہے۔ وہ 5 جون 1882 ء کو اکبرآباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مروّجہ دستور کے مطابق عربی اور فارسی سے ہوئی پھر ان کے والد مولوی محمد حسین نے انھیں انگریزی اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔سیماب کو فصیح الملک داغ دہلوی سے شرفِ تلمّذ حاصل تھا. انھوں نے تقریباً تین سو کتابیں تصنیف و تالیف کیں جن میں تمام مروّجہ اصنافِ شاعری کے علاوہ تنقید، تحقیق، ترجمہ، افسانہ اور ڈراما وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی مقبول ترین کتابوں میں غزلوں کے تین دیوان کلیمِ عجم، سدرۃ المنتہیٰ او ر لوحِ محفوظ کے علاوہ نظموں کے مجموعے نیستاں، کارِ امروز، ساز و آہنگ اور سازِ حجاز، رباعیات کا مجموعہ عالم آشوب، فن اور اصلاحِ شاعری پر دو کتابیں رازِ عروض اور دستور الاصلاح وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا مکمّل منظوم اردو ترجمہ وحیِ منظوم ہے، اس کے علاوہ مثنوی مولانا روم کی مکمل چھے جلدوں کا منظوم ترجمہ الہامِ منظوم بھی اہم کام ہے۔ سیماب کے تقریباً تین ہزار شاگرد ہوئے، ان کے ناموَر شاگردوں میں راز چاند پوری، اعجاز صدیقی، بسمل سعیدی، شفا گوالیاری، قمر نعمانی سہسرامی، ساغر نظامی، مختار صدیقی، طُرفہ قریشی، الم مظفر نگری، مخمور جالندھری، سراج الدین ظفر، ضیا فتح آبادی، الطاف مشہدی، شہ زور کاشمیری، قتیل شفائی، آغاز برہان پوری، ابو المجاہد زاہد، جالب مظاہری، مفتوں کوٹوی وغیرہ شامل ہیں۔ اردو کے اس مجتہد نے ادب میں دہلی، لکھنؤ اور عظیم آباد اسکول کی طرح آگرہ اسکول کا تصوّر دیا۔ نشر و اشاعت کے فروغ کے لیے قصر الادب نامی ادارہ قائم کیا جس کے تحت متعدّد کتابیں شائع کیں اور رسائل و اخبارات جاری کیے جن میں ماہنامہ شاعر قابلِ ذکر ہے۔ سیماب اکبرآبادی کے فرزند اور جانشین اعجاز صدیقی بھی نامور شاعر اور صحافی تھے، اعجاز کے فرزندان افتخار امام صدیقی اور حامد اقبال صدیقی کا شمار بھی مشہور شعرا میں ہوتا ہے۔ سیماب اکبرآبادی نے 31 جنوری 1951 ء کو کراچی میں وفات پائی۔ 


January 31

Today is the 72nd anniversary of Allama Seemab Akbarabadi.

Seemab Akbarabadi (Sheikh Ashiq Hussain Siddiqui) is one of the prominent teachers of Urdu. He was born on 5 June 1882 in Akbarabad (Agra). His early education was in Arabic and Persian according to the prevailing system, then his father, Maulvi Muhammad Hussain, enrolled him in an English school. He authored and compiled about three hundred books, which include criticism, research, translation, fiction and drama, in addition to all popular genres of poetry. Among his most popular books are three divans of ghazals, Kaleem-i-Ajam, Sidrat Al-Muntahi and Loh-e-Mahfooz, in addition to collections of poems, Nestan, Kar-e-Imrooz, Saz-i-Ahang and Saz-e-Hijaz, a collection of Rabaiyats, Alam Ashoob, two books on art and poetry reform, Raz. Propositions and Dastur al-Islah etc. are included. His greatest achievement is the complete Urdu translation of the Holy Qur'an, Wahi-i-Manzoom, in addition to this, the complete six-volume verse translation of Masnavi Maulana Rum is also an important work. Seemab had about three thousand students, among his famous students were Raz Chandpuri, Ejaz Siddiqui, Bismal Saeedi, Shifa Gwaliari, Qamar Naumani Sahasrami, Sagar Nizami, Mukhtar Siddiqui, Turfa Qureshi, Alam Muzaffar Nagri, Makhmour Jalandhri, Sirajuddin Zafar, Zia Fatehabadi, Altaf Mashhadi, Shah Zor Kashmiri, Qateel Shafai, Azaar Burhan Puri, Abu Al Mujahid Zahid, Jalib Mazahiri, Muftu Kotvi, etc. are included. This Urdu mujtahid envisioned the Agra school as the Delhi, Lucknow and Azimabad schools in literature. For the promotion of broadcasting, he established an institution called Qasr-ul-Adab, under which many books were published and magazines and newspapers were published, among which the monthly magazine Shaar is worth mentioning. Ejaz Siddiqui, son and successor of Seemab Akbarabadi, was also a famous poet and journalist, Ejaz's children Iftikhar Imam Siddiqui and Hamid Iqbal Siddiqui are also famous poets. Seemab Akbarabadi died on January 31, 1951 in Karachi.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو