نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*نظام الدین نظامؔ کی شاعری اپنے عہد کی عکاس ہے۔۔۔۔۔ ارتضی نشاط*

*نظام الدین نظامؔ کی شاعری اپنے عہد کی عکاس ہے۔۔۔۔۔ ارتضی نشاط*

Nizamuddin Nizam's poetry is a reflection of his era.

ممبئی۔ رسالہ ’’اردوچینل‘‘ کے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ سیریز کے تحت پہلا پروگرام معمار فائونڈیشن ،ممبئی کے اشتراک سے ۱۱؍ جنوری کو اسلام جمخانہ، ممبئی میں معروف شاعر مرحوم نظام الدین نظامؔ کے فن اور شخصیت پر ایک مذاکرے کی صورت منعقد کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت ممتاز شاعر ارتضیٰ نشاط نے کی۔ انھوں نے نظامؔ کی شاعری کو اپنے عہد کی عکاس بتایا۔ارتضیٰ نشاط نے اُس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کافِ استنبول کی نشستوں کا ذکر کیا۔اپنے کلیدی خطبے میں شاہد لطیف نے نظام الدین نظام کی شاعری اور حیات پر تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے نظامؔ کو ایک ذمہ دار شخص اور بے پناہ شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظامؔ اگر آج زندہ ہوتے تو ملک کے معاصر شعرا میں نمایاں ہوتے لیکن کم عمری میں انتقال کے باوجود نظام کے کلام میں وہ دم خم ہے کہ اُن کا نام زندہ رہے گا۔ ڈاکٹر قاسم امام نے افتتاحی خطاب میں نظام الدین نظام سے اپنی قربت کے کئی واقعات بیان کیے۔ انھوں نے نظام کی زندگی کے کئی گوشوں کو دلچسپ پیرائے میں سامعین کے سامنے پیش کیا۔ شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز نے نظام الدین نظام کی ادبی خدمات کو قابلِ قدر قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے مقالوں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔معروف شاعر اعجاز ہندی نے اس مذاکرے میں نظام الدین کے فکر و فن پر مفصل مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے نظام ؔ کی شعری امتیازات کو بیان کرتے ہوئے ان کی حالات زندگی پر بھی روشنی ڈالی۔ ممبئی کے نئے شعرا نے بھی نظام الدین نظام کو بھرپو ر خراج عقیدت پیش کیا۔ عبیداعظم اعظمی نے اپنے مقالے میں نظام الدین نظام ؔکی فکری و فنی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے نظام ؔ کے منتخب اشعار پیش کیے۔ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے ’’ادھورے خوابوں کا پورا شاعر ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے نظامؔ کے پیرایۂ اظہار پر تفصیلی گفتگو کی۔ ڈاکٹر قمر صدیقی نے اپنے مقالے میں ممبئی کے ادبی ماحول اور نظام الدین نظام ؔ کے شعری رویے کو بڑی خوبی سے بیان کیا۔ مقصود آفاق نے نظام الدین نظام کے شعری نظام کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا۔افتتاحی کلمات میں معمار فائونڈیشن کے صدر عابد شیخ نے معمار فائونڈیشن اور اردو چینل کا مختصر تعارف پیش کیا اور پروگرام کی غرض و غائیت بیان کی۔ پروگرام وسیم شیخ کے رسمِ شکریہ پر ختم ہوا۔ 

ممبئی۔ رسالہ ’’اردوچینل‘‘ کے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ سیریز کے تحت پہلا پروگرام معمار فائونڈیشن ،ممبئی کے اشتراک سے ۱۱؍ جنوری کو اسلام جمخانہ، ممبئی میں معروف شاعر مرحوم نظام الدین نظامؔ کے فن اور شخصیت پر ایک مذاکرے کی صورت منعقد کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت ممتاز شاعر ارتضیٰ نشاط نے کی۔ انھوں نے نظامؔ کی شاعری کو اپنے عہد کی عکاس بتایا۔ارتضیٰ نشاط نے اُس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کافِ استنبول کی نشستوں کا ذکر کیا۔اپنے کلیدی خطبے میں شاہد لطیف نے نظام الدین نظام کی شاعری اور حیات پر تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے نظامؔ کو ایک ذمہ دار شخص اور بے پناہ شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظامؔ اگر آج زندہ ہوتے تو ملک کے معاصر شعرا میں نمایاں ہوتے لیکن کم عمری میں انتقال کے باوجود نظام کے کلام میں وہ دم خم ہے کہ اُن کا نام زندہ رہے گا۔ ڈاکٹر قاسم امام نے افتتاحی خطاب میں نظام الدین نظام سے اپنی قربت کے کئی واقعات بیان کیے۔ انھوں نے نظام کی زندگی کے کئی گوشوں کو دلچسپ پیرائے میں سامعین کے سامنے پیش کیا۔ شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز نے نظام الدین نظام کی ادبی خدمات کو قابلِ قدر قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے مقالوں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔معروف شاعر اعجاز ہندی نے اس مذاکرے میں نظام الدین کے فکر و فن پر مفصل مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے نظام ؔ کی شعری امتیازات کو بیان کرتے ہوئے ان کی حالات زندگی پر بھی روشنی ڈالی۔ ممبئی کے نئے شعرا نے بھی نظام الدین نظام کو بھرپو ر خراج عقیدت پیش کیا۔ عبیداعظم اعظمی نے اپنے مقالے میں نظام الدین نظام ؔکی فکری و فنی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے نظام ؔ کے منتخب اشعار پیش کیے۔ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے ’’ادھورے خوابوں کا پورا شاعر ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے نظامؔ کے پیرایۂ اظہار پر تفصیلی گفتگو کی۔ ڈاکٹر قمر صدیقی نے اپنے مقالے میں ممبئی کے ادبی ماحول اور نظام الدین نظام ؔ کے شعری رویے کوMumbai. The first program under the series of "Yaad-e Raftgaan" of the magazine "Urdu Channel" was organized on 11th January in Islam Gymkhana, Mumbai in collaboration with Mimar Foundation, Mumbai on the art and personality of the famous poet late Nizamuddin Nizam. has been. This discussion was presided over by the eminent poet Irtza Nishat. He described Nizam's poetry as a reflection of his era. Ertaza Nishat mentioned the seats of Kaf Istanbul while remembering that time. In his keynote speech, Shahid Latif gave a detailed discussion on Nizamuddin Nizam's poetry and life. Describing Nizam as a responsible person and a great poet, he said that if Nizam were alive today, he would have been prominent among the contemporary poets of the country, but despite his death at a young age, Nizam's words are still alive. will remain Dr. Qasim Imam narrated many incidents of his closeness to Nizamuddin Nizam in his inaugural address. He presented many aspects of Nizam's life to the audience in an interesting manner. Dr. Abdullah Imtiaz, President of the Department of Urdu, University of Mumbai, appreciated the literary services of Nizamuddin Nizam and emphasized that the articles read in the discussion should be published in book form. The famous poet Ejaz Hindi said that Presented a detailed paper on the thought and art of Nizamuddin in the discussion. He also shed light on Nizam's life conditions while describing the poetic distinctions of Nizam. Mumbai's new poet also paid tribute to Nizamuddin Nizam. Obaid Azmi Azmi in his thesis presented the selected poems of Nizamuddin Nizam while highlighting his intellectual and artistic merits. Discussed the expression in detail. Dr. Qamar Siddiqui, in his paper, the literary environment of Mumbai and the poetic behavior of Nizamuddin Nizam




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو