نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مثنوی اس کی خوبی کا کچھ جواب نہیں

مثنوی


اس کی خوبی کا کچھ جواب نہیں


ایک خاتون کا ہے یہ قصہ 

اس کے شوہر کو آیا جب غصہ

تجربہ اس کو تھا بہت اچھا

نیک بی بی نے کر دیا ٹھنڈا

بات کرنے میں خوب ماہر تھی

عقلمندی سبھی پہ ظاہر تھی۔

اک صحافی نے پوچھا گھر آ کر

کیا پِلایا کہ مست ہے شوہر



آپ دونوں کبھی نہیں لڑتے

کوئ تکرار بھی نہیں کرتے

ہمنشیں ہیں کہ فخر کرتے ہیں

چند ایسے بھی ہیں کہ جلتے ہیں۔

سُن کے خاتون اس سے یہ بولی

بات کچھ غور کی ہے ہمجولی

کچھ نہ کچھ غلطیاں تو ہوتی ہیں

جو نہ مانیں وہی تو روتی ہیں

میں نہ پاگل نہ بے وفا ٹھہری

ان کی ناراضگی بجا ٹھہری

رب معافی دے نہ جلے کوئ

دل میں کچھ بغض نہ رکھے کوئ

اپنی بہنوں سے میرا کہنا ہے

سب کو رشتوں میں باندھ رکھنا ہے

میرا شوہر جو کرودھ کرتا ہے 

سچ ہے یہ دم بھی مجھ پہ بھرتا ہے

اس کو غصے میں دیکھ لیتی ہوں

تھوڑی چُپّی سی سادھ لیتی ہوں

سر جھکا کر کے بات کرتی ہوں

احتراماً خموش رہتی ہوں

سامنے سے کبھی نہیں ہٹتی

بات ان کی کوئ نہیں کٹتی

بول لیں بات، اپنی تھک جائیں

پوچھتی تب ہوں، چاۓ لے آئیں؟

تم کو آرام کی ضرورت ہے

ختم ہو ٹینشن یہ صورت ہے۔

جب میں شربت یا چاۓ دیتی ہوں

بیٹھ کر حال پوچھ لیتی ہوں۔

عزتِ نفس کا سوال نہیں

بات کا ان کی کچھ ملال نہیں۔

چاۓ کافی سے ان کو رغبت ہے

پھر بھی کہتے ہیں کیا ضرورت ہے۔

نرم لہجے میں ہم یہ کہتے ہیں

آپ کیوں الجھنوں میں رہتے ہیں۔

ان کو راضی کروں یہ عادت ہے

وہ بھی 'ساری' کہیں گے فطرت ہے۔

کتنی آسانیاں ہیں ہاتھ مرے

ان کی قربانیاں ہیں ساتھ مرے

کتنی محنت سے وہ کماتے ہیں

لو میں بارش میں آتے جاتے ہیں۔

بھیگ جاتے ہیں راہ میں اکثر

سرد موسم میں چھوڑ دیں بستر۔

اپنے بچوں کی ہر ضرورت کو 

پُر وہ کرتے ہیں میری حاجت کو

زندگی رب ہو یوں بسر میری

فکر کرتے ہیں کس قدر میری

آفتاب ؔ اور ماہتاب نہیں

اس کی خوبی کا کچھ جواب نہیں۔


ڈاکٹر آفتاب مجاہدؔ اعظمی 


Masnavi




There is no answer to his merits




This story is about a woman


When her husband got angry


The experience was very good


Good Bibi made it cool


She was very good at talking


Wisdom was evident to all.


A journalist asked after coming home


Did you drink that the husband is drunk?


You two never fight


There is no repetition


They are proud of themselves


There are also some that burn.


His wife said this to him


The matter is something to be considered


Some mistakes happen


Those who don't believe cry


I was neither crazy nor unfaithful


Their displeasure was justified


May the Lord forgive and not burn anyone


Do not hold any grudge in your heart


I have to say to my sisters


Everyone has to be bound in relationships


My husband who does Karudh


It's true that it also fills me with a tail


I see him in anger


I take a little silent meditation


I talk with my head down


I am respectfully silent


It never moves from the front


It does not matter to them


Talk about it, get tired of yourself


I am asking then, bring tea?


You need rest


The tension is over.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو