نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مثنوی کی تعریف:

 

مثنوی کی تعریف:

مثنوی کا لفظ مثنی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دو دو کے یا دو کیا گیا وغیرہ۔

شعری اصطلاح میں مثنوی اس کلام کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کا قافیہ بقیہ اشعار کے قافیے سے مختلف ہوتا ہے البتہ مثنوی کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔

مثنوی کے اجزاء ترکیبی یہ ہیں:
حمد، نعت، منقبت، مناجات، مدح بادشاہ/امراء، تعریف سخن یا تعریف خامہ، سبب تالیف، اصل قصہ، اختتام،

مثنوی کے اقسام:

امداد امام اثر نے مثنوی کو موضوع کے اعتبار سے حسب ذیل حصوں میں تقسیم کیا ہے:
١۔        رزمی مضامین
٢۔       بزمی مضامین
٣۔       حکمت آموز مضامین
٤۔       تصوف آموز مضامین
٥۔       متفرق مضامین
مثنوی کے لئے عام طور پر 7 بحریں مروج ہیں۔
بحر کا لفظ مذکر ہے

مثنوی خارجی یا بیانیہ شاعری کی نمائندہ صنف ہے۔مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن یہ فارسی شعراء کی ایجاد ہے. مثنوی کو دکنی شعراء کی سب سے مرغوب اور محبوب صنف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

Definition of Masnavi:


The word Masnavi is derived from Mushani which means two of two or two done etc.


In the poetic term, Masnavi refers to the words in which both stanzas of each poem have the same rhyme and the rhyme of each poem is different from the rhyme of the rest of the poems, but all the poems of Masnavi are in the same sea.



The ingredients of Masnavi are:

Hymn, Naat, Manqbat, Manajat, Madh Badshah/Imra, Appreciation Sakhan or Appreciation Khama, Cause Compilation, Original Story, Conclusion,


Types of Masnavi:


Imdad Imam Athar has divided the Masnavi into the following sections according to the subject matter:

1. Martial arts

2. Bizmi articles

3. Informative essays

4. Essays on Sufism

5. Miscellaneous subjects

Generally 7 seas are prevalent for Masnavi.

The word sea is masculine


Masnavi is a representative genre of external or narrative poetry. Masnavi is an Arabic word, but it is an invention of Persian poets. Masnavi has the honor of being the most popular and beloved genre of Deccani poets.

شمالی ہند میں مثنوی:

افضل کی ،، بکٹ کہانی،، کو شمالی ہند کی پہلی مستند مثنوی مانا جاتا ہے، بکٹ کہانی در حقیقت،، بارہ ماسہ،، ہے جس میں ایک بیوی اپنے شوہر کی جدائی میں ہر مہینے اپنے دل پر گزرنے والی کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔
شیخ عبداللہ کی،، فقہ ہندی،، بھی اہم مثنوی ہے جس میں فقہی مسائل بیان کیا گیا ہے۔

محبوب عالم عرف شیخ جیون کی چار مثنویاں ہیں:

محشر نامہ، دردنامہ، خواب نامہ پیغمبر، دھیر نامہ بی بی فاطمہ۔

جعفر زٹلی کی مثنوی:

 ظفرنامہ اورنگزیب شاہ عالم گیر بادشاہ غازی،، جس میں عالمگیر کی فتوحات کا ذکر ہے۔
دوسری مثنویاں،، در صفت پیری، طوطی نامہ، وغیرہ

فائز دہلوی کی مثنویاں:
مناجات، در مدح شاہ ولایت، تعریف پنگھٹ، تعریف ہولی، تعریف جوگن، وغیرہ
نجم الدین شاہ مبارک آبرو کی مثنوی،، آرائش معشوق یا آرائش خوباں،،

شاہ حاتم کی مثنویاں:

مثنوی سراپا، ساقی نامہ، وصف قہوہ، وصف تمباکو و حقہ، مثنوی بہاریہ مسمی بہ بزم عشرت،
سوال : بارہ ماسہ کسے کہتے ہیں؟
جواب: بارہ ماسہ مثنوی سے الگ ایک صنف ہے جس میں ہر مہینے کے حساب سے اشعار کہے جاتے ہیں۔

# میر تقی میر غزل ہی کے نہیں مثنوی کے بھی مسلم الثبوت استاد ہیں۔
دریائے عشق اور شعلہ عشق میر کی شاہکار مثنویاں ہیں۔

شمالی ہند کے چار سرکردہ اور اہم مثنوی نگار ہیں:
1
۔ میر تقی میر
2
۔ میر حسن
3
۔ نسیم
4
۔مرزا شوق
نواب مرزا شوق کی مثنویوں کے نام:
فریب عشق، بہار عشق، زہر عشق
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی کا نام:
گلزار نسیم ہے۔

سودا کی عشقیہ مثنوی کا نام *،، قصہ پسر شیشہ گر و زرگر،،* ہے۔

کلیات مومن میں کل 12 مثنویاں ہیں.

*،،قول غمگین،،* مومن کی سب سے اچھی مثنوی ہے جوکہ عشقیہ ہے۔

دیا شنکر نسیم کی مثنوی،، گلزار نسیم کو میر حسن کے،، سحر البیان،، کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔
محمد حسین آزاد کی مشہور مثنوی،، شب قدر،، ہے تو حالی کی مشہور مثنوی،، نشاط امید،، ہے۔

*دکن میں اردو مثنوی کا آغاز*

بہمنی سلطنت دکن کی پہلی خود مختار سلطنت ہے اسکا بانی علاء الدين حسن بہمن شاہ تھا یہ سلطنت 1347ء میں قائم ہوئی اور تقریباً 2 سو برس تک قائم رہی۔

دکن میں اردو مثنوی کا باضابطہ آغاز بہمنی عہد سے ہوتا ہے اور وہ فخر دین نظامی بیدی کی مثنوی،، کدم راؤ پدم راؤ،، ہے۔
اسی عہد کی ایک اور اہم مثنوی اشرف بیابانی کی،، نوسرہا،، ہے۔
میراں جی شمس العشاق بہمنی عہد کی ایک ممتاز شخصیت ہیں جنہوں نے اسرار و رموز و معرفت کو اپنی منظومات کا موضوع بنایا اور،، خوش نامہ، خوش نغز، شہادت التحقیق، مغز مرغوب، اور،، چہار شہادت،، یہ سب منظومات مثنوی کی ہیئت میں لکھی ہیں۔

بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد 5 سلطنتیں وجود میں آئیں۔

1۔        بیجا پور میں عادل شاہی سلطنت
2
۔        گولکنڈہ میں قطب شاہی سلطنت
3
۔       أحمد نگر میں نظام شاہی سلطنت
4
۔        بیدر میں برید شاہی سلطنت
5
۔       برار میں عماد شاہی سلطنت
ان میں عادل شاہی اور قطب شاہی خاندانوں نے اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
عادل شاہی سلطنت کی بنیاد 1490ء میں پڑی اس کا بانی یوسف عادل جاں تھا۔

تقریباً 2 سو سال انکی حکومت رہی 9 بادشاہوں نے حکومت کی پھر 1686ء میں اورنگزیب عالمگیر نے بیجا پور کو فتح کر لیا اور عادل شاہی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

إبراهيم عادل شاہ ثانی جس کو،، جگت گرو،، بھی کہتے ہیں اسے علم وأدب اور موسیقی کا بہت شوق تھا اس کے زمانے میں بیجا پور علم و ادب کا گہوارہ بن گیا تھا۔
اس نے گیتوں کا ایک مجموعہ،، نورس،، کے نام سے لکھا تھا۔
بیجا پور کی اولین شعری کاوشوں میں برہان الدین جانم کی منظومات آتی ہیں. برہان الدین جام، میراں جی شمس العشاق کے فرزند ہیں۔
،، ابراہیم نامہ،، ابراہیم عادل شاہ ثانی کے درباری شاعر عبدل کا شعری کارنامہ ہے۔

دکنی کی قدیم مثنویوں میں محمد عاجز کی مثنویاں،، یوسف زلیخا، لیلی مجنون، قابل ذکر ہیں۔
مقیمی کی،، چندر بدن و مہیار،، بیجا پور کی پہلی عشقیہ مثنوی ہے۔

کمال خاں رستمی کا،، خاور نامہ،، اور ملک خوشنود کی مثنوی،، جنت سنگار،، بھی اہم ہے۔
اسی طرح صنعتی کی مثنوی،، قصہ بے نظیر،، بھی اہم ہے۔
حسن شوقی کی دو مثنویاں،، فتح نامہ نظام شاہ،، اور ،،میزبانی نامہ،، ہیں۔
علی عادل شاہ ثانی کے درباری شاعر نصرتی کی مثنویاں درج ذیل ہیں۔
گلشن عشق (عشقیہ) ہے اور علی نامہ اور تاریخ اسکندری (یہ دونوں رزمیہ ہیں)۔
علی عادل شاہ ثانی کے عہد کا ایک اور اہم شاعر ہاشمی ہے. وہ ریختی کا صاحب دیوان شاعر ہے اسکی مشہور مثنوی،، یوسف زلیخا،، ہے۔

*قطب شاہی عہد میں مثنوی*

قطب شاہی عہد کا بانی قلی قطب شاہ تھا اس نے 1518ء میں خود مختار ریاست قائم کیا اور گولکنڈہ کو دارالحکومت بنایا اس کے 8 حکمران ہوئے بالآخر 1687ء میں اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ کو بھی فتح کرلیا۔
ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں فیروز، محمود اور ملا خیالی جیسے اساتذہ داد سخن دے رہے تھے۔
احمد گجراتی کی مثنوی،، یوسف زلیخا،، کو دبستان گولکنڈہ کی پہلی ادبی کاوش کہا جاسکتا ہے۔
وجہی کی مثنوی،، قطب مشتری،، ہے
غواصی کی تین مثنویاں ہیں:
مینا ستونتی ،سیف الملوک و بدیع الجمال ،اور، طوطی نامہ۔
ابن نشاطی کی مثنوی،، پھول بن،، ہے
قطب شاہی عہد کے آخری بادشاہ ابو الحسن تانا شاہ کے عہد کی مثنویوں میں طبعی کی مثنوی،، بہرام و گل اندام،، ایک اہم مثنوی ہے۔
قطب شاہی عہد کی آخری مثنوی فائز کی،، رضوان شاہ و روح افزا،، ہے۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو