اس
کہاوت کا مطلب ہے کہ جو خوبصورت ہوتے ہیں انہیں سنورنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور جو
پڑھا لکھا ہوتا ہے اسے فارسی پڑھنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ پچھلے زمانے میں
فارسی عام تھی جو سرکار درگار سے لے کر بازار گھر وغیرہ میں عام بولی جاتی تھی۔ اس
وقت کی بات ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص آسانی سے فارسی پڑھ سکتا تھا۔ جیسے آج ریاستی
زبان کنڑا، ملکی زبان ہندی اور بین الاقوامی زبان انگریزی ہے۔ ایک پڑھے لکھے کو کم
از کم یہ تین زبانیں آنی چاہئے تبھی یہ پڑھا لکھا ماناجاسکتا ہے۔
یہ
باتیں میں کیوں کہہ رہا ہوں اس میگزین میں یا اس اداریہ میں اس کی کیا ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں اس کے اصل مقصد کی طرف۔ جیسے کے آپ سبھی جاتے ہیں کہ ہمارے اس میشن
یعنی ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری اور ان کی
ٹیم کا مشین اس میگزین کا مشین صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ انسان تمام بیماریوں سے
آزاد رہے۔ اگر بیمار بھی ہوتا ہے تو وہ اپنا علاج خود اپنے گھریلو چیزوں سے کرے۔
اس کو کبھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کو مہنگی مہنگی دواؤں کی ضرورت
نہ ہو۔ مختلف تکلیف دہ تجربات کی ضرورت نہ پڑے۔ کسی مشین میں اپنے آپ کو ڈال کر
اور زیادہ بیمار نہ ہو۔ ان تمام بیماریوں اور بیماریوں سے ہونے والے خرچ جو زندگی
بھر کی کمائی انسان اپنے آخری وقت میں گنودیتا ہے اس کو بچانے کیلئے۔ اور سب کو
اپنا ڈاکٹر خود بنانے کیلئے یہ ڈاکٹر بسواروپ کا مشین ہے اور اسی مشین کی ایک کڑی
یہ پندرہ روزمیگزین بھی ہے۔
دوستو
ڈاکٹر بسواروپ رائے نے کئی ہزار مریضوں پر کئے گئے تجربات کی روشنی میں بہت سارے
اشتہارات، پوسٹرس، جیسے POEM، Game for DISEASE
FREE WORLD OF LIFE، جیسے Hospital in a
Box جیسے بہت سارے مختصر مگر مفید دواؤں
پر منحصر کیٹس دئے ہیں۔ لیکن ہم اپنی تساہلی یا عدم اعتماد کے وجہ سے اس کو
استعمال نہیں کرتے ہیں۔ نظر انداز کرتے ہیں۔
آج میں اپنا ہی ایک تازہ واقعہ سنانا
چاہتا ہوں۔ میری دختر جو کہ 15 سالہ اب دسویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ اس کو تین دنوں
سے بخار رہا، گھریلو نسخے اور دو ایک ہومیوپیتھک دوائیں دی گئیں اور بخار کچھ کچھ
کم رہا۔ دو دن بعد وہ ایک پارٹی میں گئی جہاں پر اس نے ائسکریم وغیرہ کا استعمال
کیا اور سردی میں کھیل کود کیا ۔ جس کی وجہ سے اس کے کان میں درد شروع ہوگیا۔ اور
پس بھی آنے لگا۔ گھروالوں نے فوراً ہی
الوپیتھک دوائی شروع کردی۔ تین دن کیلئےsinarest lp،
taximo 200
دینے شروع کردئے۔ اسی طرح مختلف دوائیں
دینے کے باوجود مریض کو ایک ہفتے سے کچھ آرام نہیں ہوا بلکہ تکلیف مسلسل بڑھتی ہی
جارہی تھی۔ تنگ آکر بچی کی ماں نے غصے میں
ایک معروف ENT کے پاس گئی۔ جہاں پر خوش قسمتی سے
ڈاکٹر دستیاب نہیں تھا۔ واپس آگئے دوسرے دن جانا تھا۔ لیکن لڑکی کی تکلیف دیکھ کر
میں نے اس کو POEM کا چارٹ یہ
کہتے ہوئے دیا کہ کم از کم اس میں تو دیکھو کہ کیا کچھ حل لکھا ہوا ہے۔ دیکھنے پر POEM
کے کالم نمبر 21
پر اس کا حل ملا۔ حل یہ تھا کہ پیاز کا رس گرم کر کے کان میں ڈالنا ہے۔ اور ادرک
اور ہلدی کا دھوناں دینا ہے۔ اس پر عمل کیا گیا فوراً آرام ہوگیا اور اسی دن لڑکی
نے رات ایک بجے تک اپنا ایک ہفتے کا سارا اسکول کا کام کیا اور صبح اسکول چلی گئی۔
تو قارئین "ہاتھ کن گن کو آرسی
کیا ہے" آپ بھی اپنے اپنے مسائل کا حل ان POEM،
Game for DISEASE
FREE WORLD OF LIFE، جیسے Hospital in a
Box جیسے چارٹ کو drbswaroop.com سے ڈانلوڈ کریں اور اپنے اپنے مسائل کا حل
نکالیں۔ یہ تمام چیزیں ڈاکٹر بسواروپ اور ان کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کافی محنت اور
ریسرچ کے بات لکھا ہے۔ ایسی ہی نہیں کہ "لگا تو تیر نہیں تو تکا" بلکہ
یہ نسخہ جات "تیر بہ حدف" یا
یوں کہیں کہ رام بانڈ ہیں۔
ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ
ایڈیٹر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں