نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گائے دودھ نہیں دیتی A cow does not give milk

 گائے دودھ نہیں دیتی

A cow does not give milk

ایک باپ اپنے چھوٹے بچوں سے کہا کرتا تھا کہ جب تم بارہ سال کے ہو جاؤ گے تو میں تمہیں ایک خُفیہ بات زندگی  کے بارے میں  بتاؤں گا 

اور پھر ایک دن اُس کا بڑا بیٹا بارہ سال کا ہو گیا۔ اُس نے ابا جی سے کہا آج میں بارہ سال کا ہو گیا ہوں مجھے وہ خُفیہ بات بتائیں

ابا جی بولے آج جو بات تمہیں بتانے جا رہا ہوں تُم اپنے کسی چھوٹے بھائی کو یہ بات نہیں بتاؤ گے

خفیہ بات یہ ہے کہ “گائے دودھ نہیں دیتی”

بیٹا بولا آپ کیا کہہ رہے ہیں گائے دودھ نہیں دیتی!

ابا جی بولے بیٹا گائے دودھ نہیں دیتی، دودھ کو گائے سے نکالنا پڑتا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا پڑتا ہے، کھیتوں میں جا کر گائے کو باڑے لانا پڑتا ہے جو گوبر سے بھرا ہوتا ہے، گائے کی دُم باندھنی ہوتی ہے۔ گائے کے نیچے دودھ کی بالٹی رکھنی پڑتی ہے، پھر اسٹول پر بیٹھ کر دودھ دوہنا پڑتا ہے۔ گائے خود سے دودھ نہیں دیتی۔

ہماری نئی نسل سمھجتی ہے کی گائے دودھ دیتی ہے۔ یہ سوچ اتنی خود کار ہو گئی ہے ہر چیز بہت آسان لگتی ہے۔ ایسے کہ جو چاہو وہ فوراً مل جائے ۔ مگر زندگی صرف سوچنے اور فوراً حاصل کرنے کا نام نہیں ہے۔ دراصل خوشیاں مستقل کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اگر کوشش نہ کی جائے تو وہ ذہنی دباو یا فرسٹریشن میں اضافہ کرتی ہے۔ 


یاد رکھیں اور اپنے بچوؔں کو بتائیں کہ 

“گائے دودھ نہیں دیتی؛ آپ کو دودھ دوہنا پڑتا ہے


A father used to tell his young children that when you turn twelve, I will tell you a secret about life.


And then one day his eldest son turned twelve years old. He said to Abbaji, today I have turned twelve years old, tell me that secret


Father said, what I am going to tell you today, you will not tell any of your younger brothers


The secret is that "cows don't give milk."


The son said, what are you saying, the cow does not give milk!


Father said son cow does not give milk, milk has to be extracted from the cow. One has to get up early in the morning, one has to go to the fields and fetch the cows which are full of dung, one has to tie the cow's tail. A bucket of milk has to be placed under the cow, then milked sitting on a stool. A cow does not give milk by itself.


Our new generation understands that cows give milk. This thinking has become so automatic that everything seems so easy. In such a way that whatever you want can be found immediately. But life is not just about thinking and getting it right away. Actually, happiness is the result of constant efforts. If not attempted, it leads to stress or frustration.




Remember and tell your children that


“The cow does not give milk; You have to milk

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور