نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں Give the elderly plenty of water

 بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں ؛ (پانی کی بھری ھوئی بوتل ان کے پاس سامنے  بلکہ قریب تر رکھیں)۔

By Arnaldo (Liechtenstein, physician)

میں جب بھی میڈیسن  کے چوتھے سال میں طلباء کو کلینیکل میڈیسن سکھاتا ہوں تو میں مندرجہ ذیل سوال پوچھتا ھوں:

 بوڑھوں میں ذہنی الجھن کی وجوہات کیا ہیں؟

کسی کا جواب ہوتا ہے:

سر میں ٹیومر۔

میں نے جواب دیا: نہیں۔

دوسرے تجویز کرتے ہیں: الزائمر کی ابتدائی علامات۔

میں نے پھر جواب دیا: نہیں۔

ان کے جوابات کو مسترد کرنے کے بعد جب وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ تو جب میں انہیں تین عام وجوہات کی فہرست دیتا ہوں تو ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔

1- بے قابو ذیابیطس۔

2- پیشاب کا انفیکشن۔

3- پانی کی کمی۔

یہ وجوہات بظاھر لطیفے کی طرح لگتی ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔

عام طور پر 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو پیاس لگنا بند ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مائعات پینا بند کردیتے ہیں۔ اور اگر کوئی ارد گرد موجود فرد انہیں کچھ  پانی وغیرہ پینے کی یاد نہ دلائے تو وہ تیزی سے ڈی ہائیڈریٹ ہو نے لگتے ہیں۔ ان کےجسم میں پانی کی کمی شدید ہو جاتی ہے اور اس سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے۔

Whenever I teach clinical medicine to fourth-year medical students, I ask the following question:

  What are the causes of mental confusion in the elderly?

One answer is:

Tumor in the head.

I replied: No.

Others suggest: early signs of Alzheimer's.

I replied again: No.

After rejecting their answers, they become silent. So when I give them a list of three common reasons, their mouths drop open.

1- Uncontrolled diabetes.

2- Urinary tract infection.

3- Dehydration.

These reasons seem like a joke.

But it is not so.

People over the age of 60 usually stop feeling thirsty and consequently stop drinking fluids. And if someone around doesn't remind them to drink some water, etc., they tend to get dehydrated quickly. Dehydration in their body becomes severe and it affects the whole body.

that sudden mental confusion,

جو اچانک ذہنی الجھن،

بلڈ پریشر میں کمی،

دل کی دھڑکن میں اضافہ،

انجائنا (سینے میں درد)،

کومہ اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔

پانی وغیرہ پینا بھولنے کی یہ عادت 60 سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔

ہمارے جسم میں پانی کی مقدار %50 فی صد سے زیادہ ہونا چاہئے۔

جب کہ60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے  بدن میں پانی کا ذخیرہ کم  ہوتا ہے۔ یہ قدرتی  طور پر عمر بڑھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔

لیکن! اس میں مزید پیچیدگیاں بھی ہیں۔ یعنی اگرچہ وہ پانی کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں پر  انہیں پانی پینے کی طلب نہیں ہوتی، کیوں کہ ان کے جسم کے اندرونی توازن کے طریقہ کار زیادہ بہتر طور پر کام نہیں کررہے ہوتے ہیں۔

نتیجہ

 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ آسانی سے پانی کی کمی کاشکار ہو جاتے ہیں

کیونکہ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس پانی کی فراہمی بہت کم ہےبلکہ  وہ جسم میں پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔

اس کے باوجود اگرچہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد صحت مند نظر آسکتے ہیں۔

لیکن رد عمل اور کیمیائی افعال کی کارکردگی ان کے پورے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اس لئےاگر آپ کی عمر 60 سال  سے زیادہ ہے تو آپ:

1۔ مائعات پینے کی عادت ڈالیں۔ مائع میں پانی، جوس، چائے، ناریل کا پانی، دودھ، سوپ، اور پانی سے بھرپور پھل، جیسے تربوز، آڑو اور انناس شامل ہیں۔ اورنج اور ٹینجرین بھی کام کرتے ہیں۔

♡ یہ اہم بات  یاد رکھیں کہ، ہر 2 دو گھنٹے کے بعد، آپ کو کچھ مائع  لازمی پینا چاہئے۔

2- کنبہ کے افراد کے لئے انتباہ! 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو مستقل طور پر پانی وغیرہ پیش کریں اور اسی وقت ان کی صحت کا مشاہدہ بھی کریں۔

اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ وہ  ایک دن سے دوسرے دن تک  پانی اور جوس وغیرہ  پینے سے انکار کر رہے ہیں اور وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں یا ان میں سانس کا مسئلہ ہوتا ہے یا توجہ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں تو، یہ ان کے جسم میں پانی کی کمی کے قریب قریب آنے والی علامات ہیں۔


گزارش:-

ان معلومات کو صدقہ جاریہ سمجھ کر یہ معلومات ذیادہ سےزیادہ گروپ میں اور اکاونٹ میں شیئرنگ کریں تمام عوام الناس کو پہنچے اور اس طرح دوسروں کو بھیجیں کیونکہ یہ معلومات 

 آپ کے دوستوں اور کنبہ والوں سبکو اسےجاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے شئیر کریں گے تو اس طرح وہ  60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو صحت مند اور خوش باش رہنے میں مدد کر سکیں گے، اچھا معاشرہ تشکیل پائے گا دین اور دنیا کامیابی سے  ساتھ ساتھ چلائیں یہ ھی انسانیت کو بھی مقصود و مطلوب ہیں♥️۔


⚘ملتمس دعا🤲:

جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو