نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک انسان دو منطبق (پیوستہ) جسم One human being two compatible (joined) bodies

ایک انسان دو منطبق  (پیوستہ) جسم

One human being two compatible (joined) bodies

سیدعبدالقدیر ، احمد منزل، گلبرگہ

 

            انسان کا وجود باری تعالیٰ کی ایک بہترین اور حکیمانہ تخلیق کا نتیجہ ہے۔ دوسری تمام مخلوقات سے اعلیٰ درجہ عنایت فرماکر اس کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنایا۔ انسان اول حضرت آدم کو مٹی سے بناکر اس میں روح پھونک دی اور وہ ایک انسان کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ اس بات سے پتہ چلتاہے کہ انسان کا مادی جسم ایک مٹی کا پتلاہے اور جب اس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو انسان بن جاتاہے یعنی انسان مادی یا حیوانی جسم اور روح کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔ مادی جسم کے تعلق سے تمام لوگوں کو کچھ نہ کچھ علم ہے مگر روح کے بارے میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت کم علم دیاہے۔ یعنی روح کیا چیز ہے کس چیز سے بنی ہوئی ہے۔ انسان کے مادی جسم میں کس طرح داخل ہوتی ہے جس سے انسان میں جان آجاتی ہے اور مکمل انسان بن جاتاہے اور کس طرح جسم سے نکال لی جاتی ہے یعنی قبض کی جاتی ہے اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا اتنا ہی بیان ہے کہ روح اللہ کے حکم سے ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی ہے۔

            اس مختصر تمہید سے اس بات کو اخذ کیاجاسکتاہے کہ ایک انسان میں دو جسم یا انسان دو جسموں کے اتحصال کا نتیجہ ہے مزید یہ کہ مادی جسم مٹی سے تیار ہواہے اور روح کے تعلق سے انسان لاعلم ہے مادی جسم کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ مرد کا نطفہ عورت کے جسم میں داخل ہونے کے بعد عورت کے بیضہ سے مل کر تخم کار (Fertilize) ہوجاتاہے اور مختلف مراحل طئے کرتے ہوئے رحم مادر میں اس کی پرورش ہوتی ہے اس پرورش کے دوران رحم مادر میں ہی اللہ کے حکم سے فرشتے اس میں روح پھونک دیتے ہیں اور تخلیق مکمل ہونے پر انسان ایک کمزور اور لاچار بچہ کی شکل میں رحم مادر سے باہر آجاتاہے جس کو سوائے رونے اور ہاتھ پیر ہلانے کے کچھ نہیں آتا اور جب وہ پرورش کے مختلف ادوار سے گذرکر سن بلوغ کو پہنچ جاتاہے تب اس میں ایک انسان کی تمام صلاحیتیں، قوتیں، طاقت اور شعور وغیرہ مکمل ہوجاتاہے۔

            مادی جسم کے اعضاء جو جسم میں باہر کی طرف ہوتے ہیں اس کا مشاہدہ سب ہی کرسکتے ہیں اس کے علاوہ جسم کے اندر بھی بہت سے اعضاء ہوتے ہیں جس کا کچھ نہ کچھ علم سبھی کو ہے۔ اندرون جسم کے چار اعضاء نہایت ہی اہم اور ضروری ہیں ان اعضاء کو اعضاء رئیسہ (Vital Organs) کہتے ہیں یہ چار اعضاء

١)         دماغ                  Brain                          ٢)        دل                    Heart

٣)        پھیپڑے              Lungs   اور                     ٤)        گردے               Kidneys

            ان اعضائے رئیسہ کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اگر کوئی عضوکام کرنا بند کردے یا فیل ہوجانے کی صورت میں انسان موت کی آغوش میں چلاجاتاہے البتہ دو گردوں میں سے ایک بھی گردہ کام کرے اور دوسرا گردہ اگر فیل ہوجائے تو نہ صرف انسان زندہ رہتاہے بلکہ معمول کے مطابق زندگی گذارسکتاہے۔

دماغ :  جسمانی دماغ ایک گودے کی طرح ہوتاہے اور اس کا تعلق رگوں کے ذریعہ جسم کے ہر حصہ سے  ہوتاہے سوائے ناخن و بال کے۔ دماغ کا گودہ اور اس کے اطراف گول کی جالی اسقدر نازک اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دماغ کو سب سے زیادہ حفاظت سے سر کے اطراف سخت ہڈیوں کا ایک محفوظ قلعہ (کھوپڑی) کی طرح بناکررکھاگیاہے تاکہ وہ محفوظ اور سلامت رہے، اگر کسی حادثہ کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچے تو آدمی بیہوش ہوجاتاہے اور اگر وہ درست نہ ہونے کی صورت بعض وقت موت بھی ہوجاتی ہے۔ دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کرتاہے۔ اگر جسم کے کسی حصہ کو کوئی نقصان پہنچے یا پہنچنے کا امکان ہونے پر اس کی اطلاع بجلی کی رفتار سے دماغ تک پہنچ جاتی ہے اور دماغ اس رفتار سے فیصلہ لے کر تدابیر اختیار کرنے کی اطلاع متعلقہ جسم کے حصہ کو دے دیتے ہیں اور وہ اعضا حرکت میں آجاتے ہیں اور درستگی یا احتیاطی تدابیر کا عمل شروع ہوجاتاہے۔

دل:     مادی جسم میں دل سینے کے اندر بائیں بازو پر لٹکا ہواہوتاہے اور اس کی شکل ایک انڈے کی مانند ہے اس کی دیواریں تقریباًً 1 سے 1.5 سینٹی میٹر کی سائز کی ہوتی ہیں۔ اس  کی تین رگیں بڑی سائز میں ہوتی ہے۔ دل پیدائش سے لے کر موت تک بلاوقفہ کام کرتارہتاہے یہ ایک پمپ کی طرح کام کرتاہے خراب خون کو کھینچنا اور صاف خون کو جسم کے حصوں تک پہنچانا دل کا کام ہے اس پمپنگ کو دل کی حرکت یا دھڑکنا بھی کہاجاتاہے۔ دل کی حرکت کلایوں نیچے حصے میں نبض سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے اس نبض کی وجہ سے دل کی بیماری کو معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پھیپھڑے:  پھیپھڑے بھی دل کی طرح بلاوقفہ پیدائش سے موت تک مصروف بہ کار رہتے ہیں یہ سکڑتے اور پھلتے رہتے ہیں پھیپھڑوں کی حرکت کو انسان کا سانس لینا کہتے ہیں سانس کے ذریعہ ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے اور اس ہوا کی آکسیجن کو خون کی صفائی میں کام لیاجاتاہے اور سانس کے ذریعہ جو ہوا خارج ہوتی ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

گردے: گردے بھی جسم کا اہم اور ضروری حصہ ہیں یہ دو ہوتے ہیں اور جسم میں چربی ان کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے گردے کا کام خون کو صاف کرنے کا ہے یہ خون میں سے غذا کے بے کار حصوں کو قارورہ کی شکل میں علحیدہ کرتے ہیں قارورہ مثانہ میں جمع ہوجاتاہے اور بعد میں جسم سے وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق خارج کیاجاتاہے۔

            ان اعضائے رئیسہ کے علاوہ بھی جس میں بہت سے اعضاء جسم کے باہر اور کچھ جسم کے اندر موجود ہوتے ہیں ان اعضاء کے متعلق کچھ مفید معلومات ذیل میں درج ہیں۔

١)

دماغ کا وزن مردوں میں 1400 گرام اور عورتوں میں 1275 گرام ہوتاہے جو جسم کے وزن کا 1.4 فیصد ہے، دماغ کو اپنا کام کرنے کیلئے سب سے زیادہ آکسیجن چاہئے اس لئے دوران خون میں سے 20فیصد خون کی سپلائی دماغ کو ہوتی ہے۔

٢)

جسم میں خون کی مقدار 5 لیٹر سے 7 لیٹر کے درمیان ہوتی ہے جو جسم کے وزن سے 10 فیصد ہے۔

٣)

جسمانی حجم کے تناسب سے جسم میں پانی تقریباً 90 فیصد ہوتاہے۔

٤)

پھیپھڑوں کا وزن 360 گرام سے لے کر 570 گرام کا ہوتاہے جو کہ جسمانی وزن کا ایک فیصد ہے۔

٥)

کلیجی کا وزن 1400 گرام سے 1560 گرام کے درمیان ہوتاہے جو کہ جسمانی وزن کا تقریباً 1.8 فیصد ہے۔

٦)

معدہ کی لمبائی 25 سے 30 سینٹی میٹر اور وزن 300 گرام کے قریب ہوتاہے اور اس کی گنجائش 1100 سے 1200 ملی لیٹر ہوتی ہے۔

٧)

چھوٹی آنت کی لمبائی 550 سے 560 سینٹی میٹر کے درمیان ہوتی ہے اور وزن 800 سے 900 گرام کے درمیان ہوتاہے۔

٨)

ہڈیوں کی تعداد 206 عدد اور ان کا وزن جسمانی وزن کا 11.6 فیصد ہوتاہے۔ اور ہڈیوں کے جوڑوں کی تعداد 210 عدد ہوتی ہے۔

٩)

نارمل انسان میں نبض کی رفتار 72 فی منٹ ہوتی ہے۔

١۰)

نارمل آدمی کی سانس لینے کی رفتار 24 سے 30 فی منٹ کے درمیان ہوتی ہے۔

١١)

جسم کی نارمل درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ یا 98.6 ڈگری فارن ہیٹ ہوتی ہے۔

 

مادی جسم کی بیماریاں :

            مادی جسم میں لاتعداد یا ان گنت بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ اگر جسم کا کوئی حصہ کسی وجہ سے متاثر ہوجائے اور وہ معمول کے مطابق کام نہ کرسکے تو یہ چیز بیماری کہلاتی ہے۔

            آج کل جسم کے ہر عضوع کے لئے اس عضوع کے ماہر (Specialist) ڈاکٹر موجود ہیں جو بیماری کی شناخت اور علاج کر سکتے ہیں۔ آج کل میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ بیماری کی شناخت اور علاج کیلئے نت نئی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیماری کے علاج میں  کافی سہولت ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود ایک مریض کی بیماری کی شناخت اور علاج میں دو ڈاکٹروں کی رائے مختلف ہوتی ہے اور علاج کے طریقے بھی الگ ہوتے ہیں جس طرح دو گھڑیوں کا وقت کبھی بھی برابر نہیں ہوتا۔

            بیماریوں کی اصل وجہ انسان کی اپنی لاپرواہی، بداحتیاطی، فضا میں آلودگی اور غذا میں ملاوٹ اور مرغن غذاؤں کا حد سے زیادہ استعمال کانتیجہ ہے۔ اگر ہر شخص ہر کام وقت پر کرے یعنی سونا جاگنا ورزش کرنا، نشہ آور اشیا سے پرہیز اور مچھر جو خطرناک بیماریوں کو پھیلاتے ہیں کے کاٹنے سے بچنے کی تدابیر کرنا بیماریوں کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، اسی لئے کہاجاتاہے کہ حفظ ماتقدم علاج سے بہتر ہے۔ (Prevention is better then cure)

            اب ذرا روحانی جسم پر غور کریں عالم امر میں باری تعالیٰ نے پہلے نور سے فرشتوں کی تخلیق فرمائی اور آگ سے جنوں کو پیدا کیا پھر کن فیکون سے اس دنیا میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کی تخلیق فرمائی۔ اس تخلیق کے بعد تمام ارواح کو یکجا فرماکر شعور کے ساتھ ان تمام ارواح سے اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کا اقرار اور عہد (میثاق) لیا اور تمام ارواح نے یکلخت ہاں میں اقرار کیا۔ اس عہد کے بعد حضرت آدم سے قیامت تک پیدا ہونے والی ارواح کو ایک محفوظ مقام پر رکھا اور مادی جسم کی تخلیق کے دوران رحم مادر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اس مادی حکم میں روح پھونک دیتے ہیں اور انسان کو بچے کی شکل میں تکمیل تخلیق پر رحم مادر سے باہر آجاتاہے اور اس میں شعور اور سمجھ، ناسمجھی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی سن بلوغ پر پہنچنے پر جسمانی اور روحانی قوتیں اجاگر ہوتی ہیں یہ ہیں مختصر سے حقائق مادری جسم اور روحانی جسم کے ملاپ کی اور ایک انسان کے دو پیوستہ جسموں کے بارے میں۔

روحانی اجسام کے اعضائ :

            مادی جسم کی طرح روحانی جسم کے بھی بہت سے اعضاء ہیں ان میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔

١)         شعور یا عقل                     ٢)        دل                    ٣)        دماغ

٤)        حواص خمسہ اور خو               ٥)        نفس

شعور:   جیساکہ اوپر بیان ہوا ہے ارواح کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارواح کو شعور عطا ء کرنے کے بعد عہد میثاق لیا۔ مگر پیدائش کے بعد شعور بھی آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے سن بلوغ کو پہنچنے تک ان میں پختگی آجاتی ہے شعور کا قریبی تعلق دماغ سے رہتاہے۔

 

دل:     جس طرح مادی جسم میں دل ایک نہایت ضرورت اور اہمیت کا حامل عضوع ہے اس طرح روحانی جسم کا دل بھی خاص اہمیت رکھتاہے۔ مادی اور روحانی دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے اگر روحانی دل کو کوئی صدمہ پہنچے یا غمزدہ ہوجائے تو جسمانی دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتاہے اور بعض اوقات زبردست یا اکدم صدمہ کی صورت میں دل کی حرکت بند ہوجاتی ہے اور انسان موت کو لبیک کہتاہے۔ روحانی دل خواہشات اور حرص کا ایک منبع ہے اور دماغ کو قابو میں لاکر انسان سے جیسے چاہے کام کرواسکتاہے دل اور دماغ اگر ایک ساتھ ہوجانے کی صورت میں انسان کا بیڑا غرق بھی ہوسکتاہے۔ دل کا تعلق انسانی نفس سے بھی بہت زیادہ ہے جو اس تعلق انسان کو سیدھے راستے پر بھی ڈال سکتاہے یا برائیوں کی تہہ تک لے جاسکتاہے۔

           

دماغ :   روحانی دماغ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں نیکی اور بدی کی پہچان اور دل اور نفس کو قابومیں رکھنے کی صلاحیت ہے۔ دل کی خواہشات کو قابو میں رکھ بھی سکتاہے یا مناسب خواہشات کو تکمیل بھی پہنچاسکتاہے اور اگر دماغ دل کے قابو میں آجائے تو انسان سے برائیاں سرزد ہوسکتی ہیں دل کی خواہش پہلے دماغ کی طرف رجوع ہوتی ہے اور دماغ اسکول قبول کرنے کی صورت دماغ جسمانی اعضاء کو اس کی تکمیل کی طرف رجوع کرتاہے اگر دماغ برائیوں کی طرف غیر مطمین ہونے پر دل کو صبر کا دامن تھام کر غمزدہ رہنا پڑتاہے۔

حواص خمسہ : حواص خمسہ یہ ہیں۔

١)         دیکھنا                  ٢)        سننا                    ٣)        سونگھنا

٤)        چکھنا                   ٥)        چھونا

            ان خواص کا تعلق جسمانی اعضاء سے ہے جیسے آنکھ، کان، ناک، زبان، اور جسم کا ہر حصہ

نفس:   یہ روحانی جسم کا ایک ایسا عضو ہے جس کا نام مادی جسم کے کسی عضو سے نہیں ملتا۔ یہ روحانی جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو اس دنیا میں انسان سے ایسے اعمال کرواتاہے جو اسے ایک نیک نام یا بدنام کرواسکتاہے۔ جو انسان کو شہرت دلواسکتاہے یا ذلیل و خوار کرواسکتاہے یہ انسان کو جنت کے باغات کی راہ دکھاکر جنت میں داخلہ کو آسان بناسکتاہے یا یہ جہنم کی آگ میں ڈھکیل بھی سکتاہے۔ یہ نفس اس شیطان کے تابع رہتاہے جو ہر انسان میں پیدائش سے لے کر موت تک خون کی طرح گردش کرتارہتاہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور ہر وقت انسان کو برائیوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتاہے۔ اور اس پر عمل کی دعوت دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ سے شیطان نے اجازت مانگی کہ وہ قیامت تک انسانوں کو بہکاتارہے گا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو اجازت بھی مل گئی مگر شیطان کے بہکانے کا اثر نیک اور صالح لوگوں پر نہیں ہوسکے گا۔ یہ انسان کو جھوٹی قسمیں کھاکر اور برائیوں کو خوشنما بناکر پیش کرتارہتاہے یہاں تک بہکاتاہے کہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہیں وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔ شیطان میں دعوت گناہ کی طاقت اور صلاحیت ہے مگر اس میں گناہ کروانے کی صلاحیت نہیں ہے اس سے انسان شیطان کی دعوت گناہ کو قبول کرتا اور اس کا نفس اس کو عمل آوری کی طرف راغب کرتاہے ۔ انسان کا تابع ہوتے ہوئے نفس پرور بندہ بن جاتاہے۔ جو ایک شرک کے مماثل گناہ ہے اس لئے نفس کے خلاف جدوجہد کرنا نہایت ضروری ہے اس جدوجہد کو نفس کے خلاف جہاد کہاجاتاہے جو اس جہاد میں کامیاب ہوجاتاہے وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوگا بقول غالب

نہنگ و اژدہ و شیرے نر مارا تو کیا مارا
بڑے موزی کو مارا نفس امارا کو گر مارا

نفس کی تین اقسام بتائی گئی ہیں

١)         نفس امارہ             ٢)        نفس لواماء                        ٣)        نفس مطیئنہ

نفس امارہ:       یہ انسان کو ہمیشہ برائی کی طرف راغب کرتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ ہمیشہ برائی کرتارہے گا اس کا رجحان ہمیشہ شیطان کے بہکاوئے کی طرف رہتاہے۔

نفس لواماء :کوئی براکام کرنے کے بعد اگر انسان کو ندامت، پچھتاوا اور شرمندگی محسوس ہوتو یہ نفس لواماء کا تقاضہ ہوگا۔ اور نیک کام کرنے پر بھی اور زیادہ نیکی کیوں نہ کی اس کا پچھتاوا یا احساس ہوتو وہ بھی نفس لواماء کی وجہ سے ہوگا۔

نفس مطیئنہ:      یہ انسان کو ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے کام کی دعوت دینا اور اس کے کاموں سے دل کا مطمئین ہونا ہی نفس مطمئنہ ہے۔

 روحانی جسم کی صلاحیتیں اور کمزوریاں: روحانی جسم کی صلاحیتوں میں طاقت و قوت، حافظہ، خوشی اور غم، جذبہ خدمت، جذبہ ہمدردی، دلیری اور بہادری، یقین، شرمندگی قابل ذکر ہیں۔ اور روحانی جسم کی کمزوریوں میں جبر، غصہ، حرص و حوس، ریاکاری، حسد اور جلن، بزدلی، خوف، شک اور زنا کی طرف رغبت وغیرہ وغیرہ ہیں۔

            انسان یعنی روح اور جسم کے مرکب کو دو موت اور دو زندگی دی گئی ہے دو موت اس طرح کے پیدائش سے پہلے موت کی حالت میں اور دوسری موت دنیاوی زندگی کے بعد اور دوزندگی اس طرح کہ دنیاوی زندگی اور آخرت کی ابدی زندگی۔ جبکہ روح کو اللہ تعالیٰ نے لافانی بنادیاہے انسان کی پیدائش سے پہلے عالم امر میں محفوظ جگہ دنیاوی زندگی میں مادی جسم کے ساتھ اور انسانی موت کے بعدعلین یا سجین میں اور آخرت کے بعد پھر مادی جسم کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہے۔

٭٭٭٭٭ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو