نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی When I met you by chance

جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی

کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی 💨


پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروری ميں

جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں 🥀


کتنا حسين زمانہ۔۔۔۔۔۔۔۔ آيا تھا مارچ لے کر

راہِ وفا پہ کھڑے تھے تم جلتے چراغ لے کر🔥


اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا

دنيا بدل رہي تھی موسم بدل رہا تھا💨


ليکن مئی  جون جو آیا جلنے لگا زمانہ💥

ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ


دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں

تھا جولائ کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں🔥


ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی💦

بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی


اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر

بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر📝


تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا 💔

دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا


جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی🌃

مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی


بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے💔

ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے


ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے🦋

وہ سال دوسرا تھا، يہ سال دوسرا ہے🥀 


When I met you by chance

I remember something, maybe it was January 💨

Then you met me in the month of February

As you are a companion in the path of life

What a Hussain era. Came with a march

You were standing on the path of faith with a burning lamp

At that time my friend April was running

The world was changing, the weather was changing

But when May and June came, the time began to burn

Everyone was talking about this story

You changed your eyes when you were afraid of the world

It was the month of July, there were warm sighs on my lips

When it was raining in the month of August

It was just raining day and night

There is no doubt that month was September

You sent me a letter of renunciation

You were changing. October had come

The world had changed, the weather had changed

When November came, such a night came

Barat came with the intention of rescuing you from me

It was December, emotions had died

My thoughts were shaken by these accidents

But what can I say, now the situation is different

That year was second, this year is second



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو