نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

_🔴سیرت النبی کریم ﷺ🔴_* *_🌹قسط: 01🌹_*

*_🔴سیرت النبی کریم ﷺ🔴_*


 *_🌹قسط: 01🌹_*

 

آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ہے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ، تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے۔


*سرزمینِ عرب اور قومِ عرب کا مختصر جائزہ:*


ملک عرب ایک جزیرہ نما ہے، جس کے جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان، مغرب میں بحیرہ قلزم ہے، تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ہے، مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد، بےآب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ہے، جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ہیں۔ طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ہیں۔

From today, the blessed series of the Holy Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is being started, but before the mention of the Holy Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), it is very important that you have the common conditions of the Arab and Arab nation and the general conditions of this period. Be careful, so that you can better understand how the conditions of Arab and the world were at the time of the birth of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him).




*Short review of the Arabian and Arabian nation:*




The country is an Arabian Peninsula, with the Arabian Sea on the south, the Gulf of Persian and Oman, the Gulf of Oman, in the west, in the west, the country is located in the north of the country. Most of the parts of the desert and the non -settled, are vulnerable valleys, while some areas are famous for their lush and shadowy. There are five parts of this country physically.

*یمن*


یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رہا ہے، جس کو پر امن ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا، آب وہوا معتدل ہے اور اس کے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ہیں، جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ہوتے ہیں، قوم "سبا" کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں "مأرب" نام کا مشھور بند بھی تھا، اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ہوگئی۔


*حجاز*


یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقع ہے، حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا، اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے، حجاز کا دوسرا اہم شھر یثرب ہے، جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا، جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ہے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ سے عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ہے، حجاز میں بدر، احد، بئر معونہ، حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ہیں۔


*نجد*


ملک عرب کا ایک اہم حصہ نجد ہے، جو حجاز کے مشرق میں ہے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت "الریاض" واقع ہے۔


*حضرموت*


یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ہے، بظاہر ویران علاقہ ہے، پرانے زمانے میں یہاں "ظفار" اور "شیبان" نامی دو شھر تھے۔


*مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات)*


ان میں عمان، الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ہیں، یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے، جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔


*وادی سَیناء:* 


حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ہے، جہاں قوم موسی' علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رہی، طور سیناء بھی یہیں واقع ہے، جہاں حضرت موسی' علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں۔


*نوٹ* 


ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب، یمن، بحرین، عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام، عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ہوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وہاں نقل مکانی کرکے آباد ہوئی اور نتیجتاً یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے، لیکن اصل عرب علاقہ وہی ہے جو موجودہ سعودیہ، بحرین، عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ہے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ہے۔


*عرب کو "عرب" کا نام کیوں دیا گیا؟*


اس کے متعلق دو آراء ہیں۔ ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی "فصاحت اور زبان آوری" کے ہیں۔ عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے، اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔


دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب "عربہ" سے نکلا ہے، جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ہیں، چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا۔


            *_(جاری ھے)_*


*_* 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو