نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

_🔴سیرت النبی کریم ﷺ🔴_* *_🌹قسط نمبر 02🌹_*

*_🌹 اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎🌹_*


          


*_🔴سیرت النبی کریم ﷺ🔴_* 


    *_🌹قسط نمبر 02🌹_*


*عربوں کی تاریخ '' عرب اقوام*


*مؤرخین عرب قوم کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں:*


*عرب بائدہ*


یہ قدیم عرب لوگ ہیں جو اس ملک میں آباد تھے، ان میں قوم عاد و ثمود کا نام آپ میں سے اکثر نے سن رکھا ہوگا، ان کے علاوہ عمالقہ، طسم، جدیس، امیم وغیرہ بھی اہم ہیں۔ ان لوگوں نے عراق سے لےکر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں، بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے۔


There are ancient Arab people who were settled in this country, among them the names of the people of Aad and Thamud may have been heard by you, besides Amalqa, Tasam, Jadis, Amim, etc. are important. They had established empires from Iraq to Syria and Egypt, the founders of the kingdoms of Babylon and Ashur and the founders of ancient civilization.

یہ قومیں کیسے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، اس کے متعلق تاریخ ہمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ہے، لیکن اب بابل، مصر، یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ہورہے ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں، جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو ان کو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ہوگئیں۔


*عرب عاربہ:* 


عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ہیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباہی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ہوئے۔


قحطان حضرت نوح علیہ السلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلائے، پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پزیر ہوئے، مشھور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا، پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی، اس کی ایک وجہ تووہ مشھور سیلاب ہے جو "مارب بند " ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا، اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔


اور دوسری وجہ یہ کہ جب ان کی آبادی پھیلی تو مجبوراً ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے، جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وہاں اپنی آبادیاں قائم کیں، جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وہاں آباد ہوگیا۔


بنو قحطان کا ہی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رہتے تھے انہیں مغلوب کرلیا، قلعے بناۓ اور نخلستان لگاۓ، اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشہور قبیلے تھے، جن کا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ہے۔


*عرب مستعربہ:* 


سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ہونے والے بنو اسماعیل تھے، انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا اور خود واپس چلے گئے۔


یاد رہے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ ہی خانہ کعبہ کا وجود، خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تعمیر ہوا، مگر خانوادہ ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ہوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لاۓ تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی رہنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔


جب شدت گرمی اور پیاس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی تو حضرت ہاجرہ۔ ایک عظیم ماں کی وہ بے قرار دوڑ شروع ہوئی جو آج بھی حج کا ایک لازم حصہ ہے۔


آپ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پہاڑی پر چڑھ کر دور دور تک دیکھتیں کہ شاید کہیں پانی نظر آۓ اور کبھی صفا کی مخالف سمت میں مروہ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتیں، مگر وہاں پانی ہوتا تو نظر آتا، اس دوران جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رونے کی آواز ماں کے کانوں میں پڑتی تو بے قرار ہوکر ان کے پاس دوڑی دوڑی جاتیں اور جب ان کو پیاس سے جاں بلب اور روتا بلکتا دیکھتیں تو پھر دیوانہ وار پانی کی تلاش میں جاتیں۔


اسی اثناء میں کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں ننھے اسماعیل علیہ السلام اپنی ایڑھیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی کسی چشمہ کی صورت ابل رہا ہے، بھاگ کر بیٹے کے پاس پہنچیں، اللہ کا شکر ادا


کرتے ہوۓ بیٹے کو پانی پلایا، خود بھی پیا اور پھر اس چشمہ کے ارد گرد تالاب کی صورت میں مٹی کی منڈھیر بنادی، لیکن جب پانی مسلسل بڑھتے بڑھتے تالاب کے کناروں سے باہر نکلنے لگا تو بے اختیار آپ کے مونہہ سے نکلا: 


" زم زم " (ٹھہر جا ٹھہر جا)


اور ان کے یہ فرماتے ہی پانی یکدم ٹھہر گیا۔


*زم زم قدرت کا کرشمہ:* 


یہاں آپ سے زم زم کے کنویں کے متعلق ایک معجزاتی بات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ موجودہ دورمیں اس کنواں میں بڑی بڑی موٹریں لگا کر پانی نکالا جاتا ہے، کنویں میں پانی کا لیول خانہ کعبہ کی بنیادوں سے ہمیشہ 6 فٹ نیچے رہتا ہے، کنویں سے 24 گھنٹے لگاتار پانی نکالا جاتا ہے، جس کی مقدار ملیئنز آف ملیئنز گیلنز میں ہوتی ہے۔


اب دو بہت ہی عجیب باتیں ظہور پزیر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ 24 گھنٹے میں مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے کنویں کا جو لیول کم ہوتا ہے وہ بہت تیزی سے محض گیارہ منٹوں میں اپنی اصل جگہ پر واپس آجاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی تیزی سے اوپر چڑھنے والا پانی ہمیشہ ہی اپنے لیول یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں سے 6 فٹ نیچے پہنچ کر خود بخود رک جاتا ہے۔


*یہ اوپر کیوں نہیں چڑھتا؟*


اور اگر یہ پانی خود بخود نہ رک جاۓ تو تب غور کریں کہ اگر 24 گھنٹے نکالا جانے والا پانی صرف 11 منٹوں میں پورا ہوجاتا ہے تو اگر یہ پانی نہ رکے اور اوپر چڑھ کر باہر بہنا شروع کردے تو تب کیا صورت پیدا ہوگی..؟


یقیناً یہ حضرت ہاجرہ کے مبارک فرمان یعنی "زم زم۔ ٹھہرجا ٹھہرجا" کی برکت ہے کہ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور جتنا بھی اس سے پانی نکال لیا جاۓ یہ بس اپنے اسی لیول تک آ کر خود بخود رک جاتا ہے، جہاں کبھی اسے حضرت ہاجرہ نے روکا تھا۔ 


*اب اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔*


اوپر بنو قحطان کے ایک قبیلہ جرھم کا ذکر کیا گیا۔ سرزمین عرب کیونکہ زیادہ تر صحرا اور لق و دق پہاڑی علاقہ پر مشتمل ہے اور پانی بہت نایاب ہے تو کسی جگہ آبادی کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہاں پانی میسر ہو، قبیلہ جرھم جب اپنے علاقہ یمن سے نئے وطن کی تلاش میں نکلا تو دوران سفر جب مکہ کی وادی میں پہنچا تو وہاں ان کو زم زم کے چشمہ کی وجہ سے ٹھہرنا مناسب لگا، کیونکہ چشمہ کی مالک حضرت ہاجرہ تھیں تو انہوں نے بی بی ہاجرہ کی اجازت سے چشمہ کے ساتھ میں ڈیرے ڈال دیئے اور آباد ہوگئے، یوں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک مضبوط عربی قبیلہ کا ساتھ میسر آیا، بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ہوئی جبکہ خانہ کعبہ بھی ازسر نو تعمیر ہوا۔


یوں مکہ بے آب وگیاہ وادی سے ایک آباد شھر کا روپ اختیار کر گیا۔


          *_(جاری ھے)_* 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو