نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خوبصورت نعتوں کے خالق، ہند پاک کے شہرۂ آفاق نغمہ نگار اور معروف شاعر” تنویرؔ نقوی صاحب “ کا یومِ ولادت...*

 *آج - 06؍فروری 1919*


 *خوبصورت نعتوں کے خالق، ہند پاک کے شہرۂ آفاق نغمہ نگار اور معروف شاعر” تنویرؔ نقوی صاحب “ کا یومِ ولادت...*


اردو کے نامور فلمی شاعر *تنویرؔ نقوی* کا اصل نام *سیّد خورشید علی* تھا اور وہ *٦؍فروری ١٩١٩ء* کو *لاہور* میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی *نوا نقوی* کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ تنویر نقوی نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور 21 سال کی عمر میں1940 ء میں ان کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا اس سے قبل 1938ء میں وہ ہدایت کار نذیر کی فلم شاعر سے فلمی نغمہ نگاری کا آغاز کرچکے تھے۔

سنہرے سپنے کی اشاعت کے بعد ہدایت کار اے آر کاردار نے انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی جہاں ان کا قیام تقریباً آٹھ برس رہا اس دوران انہوں نے قریباً ڈیڑھ درجن فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں انمول گھڑی اور لیلیٰ مجنوں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے خصوصاً انمول گھڑی کا نغمہ آواز دے کہاں ہے تو آج بھی روز اول کی طرح پسند کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد 1950ء میں تنویر نقوی پاکستان آگئے جہاں انہوں نے اپنے بے مثل گیتوں سے دھوم مچا دی تنویر نقوی کے مقبول نغمات کی فہرست بے حد طویل ہے جن میں زندگی ہے یا کسی کا انتظار (فلم سلمیٰ)‘ جان بہاراں‘ رشک چمن (فلم عذرا)‘ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں (فلم انارکلی)‘ رم جھم رم جھم پڑے پھوار (فلم کوئل)‘ زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا (فلم ہم سفر)‘ رقص میں ہے سارا جہاں (فلم ایاز) اے دل تری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں ہے (فلم تاج محل) اور 1965ء کی جنگ میں نشرہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو سرفہرست ہیں۔

تنویر نقوی نے اپنے خوبصورت گیتوں پر تین مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا انہوں نے یہ ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں فلم کوئل کا نغمہ دل کا دیا جلایا‘ شام ڈھلے کا نغمہ‘ مرلی بجائے جا گیت سنائے جا اور فلمی دوستی کا نغمہ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے شامل تھے۔

تنویر نقوی نے کئی فلموں کے لیے کئی فلموں کے لیے کئی خوبصورت نعتیں بھی تحریر کیں جن میں فلم نور اسلام کی نعت شاہ مدینہ‘ یثرب کے والی اور فلم *ایاز* کی نعت *بلغ العلیٰ بکمالہٖ* خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

*تنویرؔ نقوی* دو شادیاں کی تھیں ان کی پہلی بیوی فلمی ادکارہ *مایا دیوی* تھیں جب کہ دوسری بیوی *ملکہ ترنّم نورجہاں* کی بڑی بہن *عیدن* تھیں۔

*٭* *تنویرؔ نقوی* کا انتقال *یکم؍نومبر 1972ء* کو *لاہور* میں ہوا۔ وہ *میانی صاحب* کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*


*፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤*


💐🎊 *ممتاز نغمہ نگار تنویرؔ نقوی کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت...* 🎊💐


ہمارے   واسطے  ہر  آرزو  کانٹوں  کی  مالا ہے 

ہمیں تو زندگی دے کر خدا نے مار ڈالا ہے

 

ادھر قسمت ہے جو ہر دم نیا غم ہم کو دیتی ہے 

ادھر ہم ہیں کہ ہر غم کو ہمیشہ دل میں پالا ہے

 

ابھی تک اک کھٹک سی ہے ابھی تک اک چبھن سی ہے 

اگرچہ ہم نے اپنے دل سے ہر کانٹا نکالا ہے

 

غلط ہی لوگ کہتے ہیں بھلائی کر بھلا ہوگا 

ہمیں تو دکھ دیا اس نے جسے دکھ سے نکالا ہے

 

تماشا  دیکھنے  آئے  ہیں   ہم  اپنی تباہی  کا 

بتا اے زندگی اب اور کیا کیا ہونے والا ہے


 ●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●


                         🔲 *تنویرؔ   نقوی* 🔲


                          *انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*

The real name of famous Urdu film poet *Tanveer Naqvi* was *Syed Khurshid Ali* and he was born on *February 6, 1919* in *Lahore*. He belonged to a scholarly and literary family and his elder brother also used to write poetry under the name of *Nawa Naqvi*. Tanveer Naqvi started writing poetry at the age of 15 and at the age of 21, his first collection was published in 1940 under the name Sunhere Sapne. .


After the release of Sunhere Sapne, director AR Kardar invited him to Bombay where he stayed for about eight years, during which he composed songs for about a half dozen films, among which the songs of Anmul Ghari and Laila Majnu were extremely popular. Especially, the song of Amul Ghori is loved even today as it was on the first day.


After the establishment of Pakistan, Tanveer Naqvi came to Pakistan in 1950, where he created a sensation with his unique songs. The list of popular songs of Tanveer Naqvi is very long, including Zindagi Hai Ya Kisi Ka Inteer (film Salma), Jaan Baharan, Rashik Chaman. (Film Ezra) 'Khan tak Sunoge Kahn tak Sanayon (Film Anarkali)' Rum Jhum Rum Jhum Pade Phawaar (Film Koil) 'Zindah Mein Ek Pul Bhi Chin Aye Na Na (Film Hum Safar)' Dance Mein Hai Sara Jahan (Film Ayaz) ) Ae Dil Teri Aahan Mein Aadhar Hai Kahi Nahi Hai (film Taj Mahal) and the song aired during the 1965 war will bring color to the blood of the martyrs.


Tanveer Naqvi won the Nigar Award three times for his beautiful songs. Among the songs for which he won this award are the songs from the film Koil Ka Nagha Dil Ka Diya Jalaya, Shaam Dhale Ka Nagha, Murali Bhare Ja Geet Sunay Ja and the film Dosti Ka Nagha Chithi. Just write down the names of Sianji.


By Tanveer Naqvi

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو