نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*باطل ذرا بتا تری سازش کا کیا ہوا....!* عزیز بلگامی

*باطل ذرا بتا تری سازش کا کیا ہوا....!*

عزیز بلگامی

عصرِ حاضر کا اِنسان چاہے اعتراف کرے نہ کرے، وہ ہر لمحہ ایک انجانے خوف کے اثر میں ہے اور لاشعوری طور پر اُسے احساسِ تحفظ ستاتا رہتا ہے۔اور تو اور، اِس دور کے مملکتوں کے سربراہ تک طرح طرح کی سیکوریٹی کے دائرے اپنے اطراف کھینچ رکھے ہیں ۔ کوئی Z securityمیں اپنی پناہ ڈھونڈتا ہے،کسی کو Z++سکیوریٹی اطمینان فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگرزمین اور آسمان اور اس کے درمیان کی ہر مخلوق، بشمول ڈری سہمی دنیا کے ہر فرد کو سیکوریٹی فراہم کرنے والے پروردگار کی کتاب میں حقیقی اطمینان و تحفظ کی جستجوکی جائے تو کیا حرج ہے!اس تناظر میں قرآنِ مجید کی سب سے آخری اور ایک نہایت ہی بلیغ سورة ”الناس“آج ہمارے غور و فکر کاموضوع ہے:


” (نبی ِمحترم آپ اپنی سیکوریٹی کے لیے) یہ الفاظ ادا فرمادیا کریں کہ!میں اِنسانوں کے رب کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں،جوفرمانروا ہے انسانوں کا،جو معبود ہے انسانوں کا،(پناہ اُس) شر سے جس کی آما ج گاہ ہیں خناّس کی وسوسہ انگیزیاں،وہ وساوس جنہیں وہ (انسانوں کے) سینوں میں ڈالتاہے،خواہ وہ(خناّس) گروہِ جِن سے متعلق ہو کہ طبقۂ انسانی سے۔ “


ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب ،حقیقتاً کتابِ ہدایت ہے، اِنسانوں کے خالق کی طرف سے، انسانوں کی ہدایت کے لیے۔ جودراصل اشرف المخلوقات کے لقب یافتہ ہیں اوراِنہیں اِن کے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت علم کے زیور سے آراستہ کیا گیا اورانہیں اوران کی ذُریت کوخلافت ارضی کی نعمت سے بھی سرفراز کیا گیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کرۂ ارض پر موجود ہر مخلوق بشمول سورج، چاند، ہوا، بادل بلکہ ہمیں دکھائی دینے والی ہرشے اِنسان کی خدمت پر مامور ہے۔ پھرہمیں خبر نہیں کہ ہماری نظروں سے اوجھل ایسی اور کتنی مخلوقات ہوں گی جو ہر لمحہ انسانوں کی خدمت میں مصروف ہیں !سوائے اُس ایک مخلوق کے جس کے بارے میں صریح طور پر ہم سے کہا گیا کہ یہ مخلوق تمہاری دشمن ہے اورزندگی کے ہر قدم پر یہ چیلنج بن کر تمہارے خلاف نبرد آزما رہے گی۔ قرآن مجید کی پینتیسویں سورة....سورۂ فاطر ....کی چھٹی آیت میں اس Hostileیا دشمن مخلوق کا تعارف کرایا گیاہے:


”( انسانو!) بلا شبہ شیطان تمہارا عدو ہے، چنانچہ تم بھی اسے چیلینج جان کر اس سے عداوت کرو....“

 

گو کہ یہ مخلوق ہماری نظر کے احاطے سے بظاہر پرے ہے،تاہم اسی زمین پر اس کا بود و باش ہے۔ دشمنی بھی اس کی روزِ اول سے ہے۔ممکن ہے قوت کے اعتبار سے یہ مخلوق انسانوں سے کئی گُنا بڑھی ہوئی ہو۔سوال یہ ہے کہ کس طرح ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اور کیا ہم اس سے مقابلہ کر تے ہوئے اُس پر غالب بھی آ سکیں گے؟ ان سوالات کے ہجوم میں جب ہم کتاب اللہ کی اس آخری سورةِ شریفہ پر غور و فکر کرتے ہیں توہم میں ہمت و توانائی، حوصلہ و امنگ کا ایک خوشگوار احساس کروٹیں لینے لگتا ہے۔

جی چاہتا ہے کہ ہم بار بار یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کریں جس کی تعلیم نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔بلکہ ان الفاظ کا مستقل وِرد ہمارے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن جائے۔ دُعا کے یہ الفاظ ہم بار باراس لیے بھی دہراتے رہیں کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کا سایۂ عاطفت نصیب ہو جائے۔ اُس کی پناہ کی جستجوہمیں بار بار اُس کی طرف پلٹنے کی طرف راغب کرتی رہے۔ کیونکہ اُسی کی بادشاہت کے دائرے میں آسمانوں اور زمین کی یہ ساری سلطنتیں ہیں۔جس کی حکومت آکاش اور پاتال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور جس کے حکم سے سرتابی کی کسی آسمان، کسی زمین،کسی سورج اور کسی چاند یا ستارے میں جرات نہیں ۔درخت کے پتہّ کی جنبش تک اُس کے اذن کی محتاج ہے۔وہ نہ چاہے تو بارش کی ایک بوند بھی نہ برسے اور اگر وہ تہیہ کر لے تو چند لمحات کی زوردار بارش بھی بستیوں کی بستیاں بہا لے جائے۔ جس کی طاقت لامحدود، جس کی قوت بے پناہ،کسی مخلوق کا کیا یارا کہ اس کی بخشی ہوئی آزادی سے زیادہ کچھ کر سکے۔ اگر ایسی بے پناہ قوتوں والی مالک الملک ہستی کا تحفظ کسی بندے کوفراہم ہوجائے تو کون ہے جواُسے کسی قسم کا ضرر پہنچا سکے؟اس میں کیا شک کہ ہم ہر لحظہ ہرجہت سے اپنے آپ کو خطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ کس رُخ سے بظاہر بے ضرر و روح پرور ہواکا کوئی جھونکا دفعتاً ایک آندھی یا طوفان کا روپ دھار لے اور زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی عمارتوں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا لے جائے۔ ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ قَل قَل کی خوشگوار راگنی الاپنے والی ندی کب اورکہاں سے ایک سیلاب کی شکل اختیار کرلے اور آبادیوں کو ذروں کی طرح بہا لے جائے۔خاموش سوئی پڑی پُر امن زمین کب اپنا قرار کھو بیٹھے اور ایک ہیبت ناک زلزلہ کا مظہر بن جائے اور انسانوں کے مساکن کو تہس نہس کرکے رکھ دے یا ایک دھماکہ کے ساتھ پھٹ جائے اور بستیوں کی بستیاںاس میں سما جائیں اور زندگی کی کوئی رمق باقی نہ بچے۔۔جیسا کہ ابھی پرسوں ترکی کے باسیوں نے اِس منظر کو دیکھا ہے، اور ہزاروں ہنستے کھیلتے انسان لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔سچ پوچھا جائے توزمین اور آسمان کے درمیان بے شمار مخلوقات ایسی ہیں جو اپنی زبردست مگر ضرر رساںقوت وحشمت کے سبب ہم کمزور انسانوں پر کسی وقت بھی غالب آسکتی ہیں۔ یہ اگر ہم پر حملہ آور ہوجائیں تو ہم بچ نہ سکیں گے۔ہمارے بچنے کی صورت اُسی وقت ممکن ہے کہ ہم ان قوتوں کے خالق و مالک ہی سے فریاد کریں کہ وہ ہمیں ان سے بچالے۔ ان انسان دُشمن قوتوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں وہ اپنی سیکوریٹی عطا کرے،جس کے بغیر ہم ایک لمحہ بھی جی نہیں سکتے۔القرآن کی چھٹی سورة.... سورۂ الانعام.... کی اکسٹھویں آیت ہم سے کہتی ہے:


” اور وہی(ربِّ ذولجلال)ہی تو ہے قاہر،اپنے بندوں پر(اپنی بے پناہ قوتوں کے ساتھ چھایا ہوا)اور (وہی ہے) تمہیں حفاظت اور سیکوریٹی فراہم کرنے والا،یہاں تک کہ جب آجاتی ہے تم میں سے کسی پر( زندگی کی)آخری ساعت ،تو ہمارے فرستادے (وفات پانے والے کی جان) اپنی Custodyمیں لے لیتے ہیں اور وہ(اس منصب کی پا بجائی میں)کسی غفلت یا کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔“ 

اس قدر قوی اورانتہائی مکمل انتظام رکھنے والا، Flawless & Error Free سسٹم بنانے والا رب جب ہماری حفاظت فرمائے تو کسی کی کیا مجال کہ ہمارا کچھ بگاڑ سکے! دُنیا کی بڑی سے بڑی کوئی طاقت، پوشیدہ ہو کہ ظاہر، ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔ اس لئے کہ ہمیں پناہ دینے والا وہ ہے جو انسانوں کا بھی رب ہے اور ان قوتوں کا بھی رب، جن سے ہمیں اندیشہ ہائے دوردراز لاحق رہتے ہیں۔ وہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، وہی اُس کی نگہداشت کر رہا ہے، اس کی ضرورت کی ہر شے کی سپلائی بس اُسی کے ہاں سے ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ ہر مخلوق اپنی بقا کے لئے اسی ایک اور اکیلے رب کی محتاج ہے۔اپنی کتاب کی پچپنویں سورة....سورۂ رحمٰن.... کی اُنتیسویں آیت میں وہ اِرشاد فرماتا ہے:


”آسمانوں اور زمین(کے چپہ چپہ میں)جو شے بھی موجود ہے(اُس کی بارگاہ میں)دستِ سوال دراز کیے کھڑی ہے تو دوسری جانب (ان سائلوں کی دست گیری کرنے میں وہ ایک نئی شان کے ساتھ ہر دن (مسلسل برسرِ کار ہے۔)“۔


لازوال طاقتوں والا ، لامحدوداختیارات کا مالک، بے کناررحم و کرم کا سر چشمہ، اپنی ہر مخلوق پر مہربان ، ہر ایک کا محافظ و پاسبان، زندگی کی رمق کا خالق اورساری کائنات کی روح رواں ۔اُسی کے لئے تو زیباہے حیات ِجاوداں.... تعریف و توصیف،حمد و ثناءکا وہی تو مستحق ہے اور اُسی کے لئے زیبا دیتی ہے ہر تکبیر: 


اَ للّٰہُ اَ کبَر اَللّٰہُ اَ کبَرلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَللّٰہُ اَ کبَر اَللّٰہُ اَ کبَر وَ لِلّٰہِ الحَمد ۔


شاہ ہو کہ گداگر،افسرہو کہ نوکر،افضل ہو کہ برتر ، ادنیٰ ہو کہ کمترسب اُسی کے پیدا کردہ ہیں۔اہلِ کرم ہو ں کہ پیکرِ غم،اہلِ ستم ہوں کہ پیکرِ شر سب اسی کے تخلیق کردہ۔تیر و تبر،شعلہ و شرر،بم کے ہنرور اورامن کے لشکر سب اُسی کی مخلوق۔ ستمگر ہوں کہ پیمبر سب اسی کے تخلیق کردہ۔ صوت و صدا کا مالک وہ،خواب و گماں کا مالک وہ، آہ و فغاں کا مالک وہ، سوزِ اذان کا مالک وہ، دستِ دُعا کا خالق وہ ،آہ و بکا کا خالق وہ، شورونوا کا خالق وہ، بانگ درا کا خالق وہ ،سنّاٹوں کا خالق وہ، آوازوں کا خالق وہ، شور کو پیدا اُس نے کیااور چیخوں کا خالق وہ ،پیاس کی فرحت اُس کی ہے، بھوک کی لذّت اُس کی ہے،دولتِ غربت اُس کی ہے ،درد کی دولت اُس کی ہے،آب پہ قبضہ اُس کا ہے،آگ پہ قبضہ اُس کا ہے، بھاپ پہ قبضہ اُس کا ہے ،باد پہ قبضہ ُاس کا ہے ،بادل کا مالک وہ ہے،بارش کا مالک وہ ہے، جھرنے کا مالک وہ ہے،دریا کا مالک وہ ہے،سب اُس کا میرا کیا ہے۔! میں توخاک کا اک پتلا، سانس کے بل پر زندہ رہنے والا، کیسی دولت والا میں،میری حیثیت اُس مالکِ کائنات کے آگے ایک مکڑی کے جالے کی سی بھی نہیں ہے۔

نہ صرف وہ خالق ہے ساری کائنات کے ایک ایک ذرّے کا، بلکہ ایک ایک ذرّے پر بادشاہت اُسی کی ہے ۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ۔ وہ مالکُ الملک ہے۔جملہ اختیارات بس اُسی کے دستِ قدرت میں ہیں۔وہ چاہے تو اپنی مخلوق کو آناً فاناً فنا کرسکتا ہے۔ اس زمین کے ایک محدود سے رقبہ پرکبھی عارضی بادشاہت دے کر کسی کوآزماتا ہے تو کبھی فرمانروائی چھین کر آزماتا ہے۔ جس کو چاہے عطا کرتاہے، جس سے چاہے چھین لیتاہے۔اس سے کوئی حجت تو کیا سوال تک نہیں کرسکتا۔ساری مخلوق اس کے سامنے جوابدہ ہے، وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔کیوں کہ وہی مالک ہے انصاف کے دن کا۔اس کی قوتوںکا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔وہ اپنی کتاب کی تیسری سورة....سورۂ آل عمران.... کی چھبیسویں آیت میں فرماتا ہے:


”(نبیِ محترم!) آپ اعلان فرمائیں کہ: خدایا،شاہوں کے شاہ،تُو بخش دے( کسی خطۂ زمین پر اختیاراتِ ) ملکیت اُسے،جوآ جائے تیری نگاہِ انتخاب میں اور محروم کردے کسی خطۂ زمین کی ملکیت سے اُسے جس کے حق میں تیری رضا نہ ہواورمعزز کردے اُسے ، جس پر تیرا کرم ہو جائے اورذلیل و خوار کردے اُسے جو تیرے بیان کردہ معیار سے گر جائے۔ خیر( کی کنجی) تو بس تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے۔بے شک توہر شے کا قادر مطلق ہے۔“


اسی طرح ایک سودو نمبرکی سورة....سورۂ تکاثر.... کی آٹھویں آیت میں فرماتا ہے:


”پھربروزِ پرسش ( اُن تمام)نعمتوں کے(جنہیں تمہاری تفویض میں دے دیا گیا تھا،اچھے یا بُرے استعمال ) کے بارے میں تم( بارگاہِ الٰہی میں) باز پرس کیے جاﺅ گے۔“


  ہم جیسی ایک کمزور و ناتواں مخلوق کو اگر اس کی پناہ، اس کی سیکوریٹی ، اُس کا تحفظ مل جائے، تودنیا کی کوئی طاقت، چاہے وہ ....مِن شَرِّ الوَسوَاسِ الخَنَّاس ....ہو کہ وہ .... مِنَ الجِنَّةِ وَالنَّاس.... ہو! صفحۂ ہستی پر موجود کوئی طاغوتی طاقت، کوئی شیطانی جاہ و حشمت یا بالفاظِ دیگرکوئی خناس، انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کا اُس کی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اگر کچھ اس کے بس میں ہے تو بس اس قدر کہ وہ دلوں میں صرف وسوسہ ڈال دے یاورغلائے ،برہم کرے یا غصہ دلائے یا گناہ پر اُکسائے۔ ہاتھ پکڑ کر گناہ کروانا یا اُسے راہِ عصیاں پربزور ڈال دینا اس کی دسترس سے باہر ہے۔ زبردست قوتوں والا مالکِ کائنا ت جب کسی کی پشت پر ہو توکہاں کی شکتیاں ،کیسے شروراورکونسی شیطانی قوتیں؟ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رب تعالیٰ کے تحفظ سے فیض یا ب ہوکر اُبھرنے والی شخصیت کیسی بہادر،کتنی بے خوف و نڈر ہوگی!جسے اپنے رب کے سوا دنیا کی کسی طاقت کاذرّہ برابر خوف لاحق نہ ہوگا۔ کیا غضب کی شخصیت ہوگی وہ جسے توہمات،ما بعد الطبعی اُمور سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ کوئی بھرم، کوئی خام خیالی اُس کے شعورو سنجیدگی کو متاثر نہیں کر سکے گی۔ وہ ایک باوقار، اعلیٰ ظرف اورایک تازہ کار وجدید انسان کی شخصیت ہوگی،جسے اپنے رب پرکامل بھروسہ ہوگا، خام خیالات اس کی ٹھوکر پر ہونگے!وہ محسوس کرے گا کہ سائنسی حقائق، قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہو رہے ہیں اور غیر سائنسی وہم و گمان کے لشکرکلامِ رباّنی کی قوّت کے آگے پسپا ہو کر رہ گئے ہیں۔ایسی ہی ایک نڈرو بے خوف اور اعلیٰ و پُر وقار شخصیت کتاب اللہ کو مطلوب و مقصود ہے اور ایسی ہی شخصیت کے لیے ممکن ہے کہ دنیا کے کسی بھی چیلنج کو حکمت و دانائی ،جرات و دانشمندی اورتفکّر ودانشوری سے کسی بھی صورتحال کواپنا ہم نوا بنالے ۔

 ورنہ الٰہی تحفظ سے بے نیاز ہو کر حالات کے بہاﺅ کو ایک مثبت موڑدینے کا ہنرسب کے بس کی بات نہ ہو سکے گی۔ 


آخر کو سربلند ہوئے حق پرست ہی

 باطل ذرا بتا تری سازش کا کیا ہوا 

(عزیزبلگامی)

(ختم شد)

azeezbelgaumi@hotmail.com 


The modern man, whether he admits it or not, is under the influence of an unconscious fear every moment and is unconsciously tormented by a sense of security. Moreover, all kinds of security circles around him, up to the head of the kingdoms of this era. They are pulling. One finds refuge in Z security, one finds satisfaction in Z++ security. But if the real satisfaction and security is sought in the book of the Lord, who provides security to the earth and the sky and every creature in between, including everyone in the world, then what is the problem? A very eloquent Surah "Al-Nas" is the subject of our consideration today:




"(Honored Prophet for your security) say these words: I want to come to the refuge of the Lord of mankind, who is the Lord of mankind, who is the God of mankind, (refuge) from the evil whose purpose is There are the whispers of the Khunas, the whispers that he puts into (humans') breasts, whether they (the Khunas) belong to the group to which they belong or to the human class. "




We know that this Book is indeed a Book of Guidance, from the Creator of mankind, for the guidance of mankind. Who are actually entitled to the title of Ashraf al-Makhluqat and they were adorned with the jewel of knowledge at the time of creation of their ancestor Hazrat Adam (peace be upon him) and they and their progeny were also honored with the blessing of earthly caliphate. Therefore, we see that every creature on the planet, including the sun, moon, wind, clouds, and everything visible to us, is engaged in the service of man. Then we don't know how many more creatures will be hidden from our eyes who are busy in the service of humans every moment! Except for that one creature about which we were explicitly told that this creature is your enemy and every step of life. But it will continue to fight against you as a challenge. This Hostile creature is introduced in the sixth verse of the thirty-fifth chapter of the Holy Quran...Surah Fatir...:




(Human beings!) Undoubtedly, Satan is your enemy, so you also know him as a challenge and fight against him....”


 


Although this creature is apparently beyond the scope of our sight, yet it resides on this earth. Enmity is also from its first day. It is possible that this creature is many times more powerful than humans. The question is, how can we fight against it? And will we be able to overcome it while fighting it? In the crowd of these questions, when we meditate on this last Surah-e-Sharifah of the Book of Allah, a pleasant feeling of courage and energy, courage and hope begins to take over us.


He wants us to repeat these words repeatedly with our tongue, which was taught to the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him). Instead, the constant repetition of these words should become a part of our daily routine. We keep repeating these words of dua again and again so that we may be blessed with the affection of Allah. His quest for refuge keeps me coming back to him again and again. Because all these kingdoms of the heavens and the earth are under the realm of His kingdom, whose government covers the heavens and the underworld, and by whose command the sovereign has no authority in any heaven, earth, sun, moon or star. Even the movement of the leaf of the tree requires his permission. If he does not want, not even a drop of rain will fall and if he wills it, even a few moments of heavy rain will wash away the villages. Whose power is limitless, whose power is immense, what kind of creature can do more than the freedom granted by Him. If the protection of the owner of such immense powers is provided to a servant, then who can do any harm to him? There is no doubt that we feel ourselves surrounded by dangers every moment and in every way. We do not know. From which direction a seemingly harmless and spirit-loving gust of wind can suddenly take the form of a storm or a storm and blow away the buildings firmly fixed in the ground like dust. We do not even know when and from where the river with the pleasant melody of Qal Qal will take the form of a flood and sweep away the population like particles. May it become a phenomenon and destroy the homes of people or explode with an explosion and the settlements of the villages will be engulfed in it and there will be no life left. As the residents of Turkey have seen this scene just the day before yesterday. , and thousands of laughing and playing humans have become a morsel of death. To tell the truth, there are countless creatures between the earth and the sky who can overcome us weak humans at any time due to their great but harmful power and majesty. If they attack us, we will not be able to escape. In case of our escape, it is possible that we cry to the creator and owner of these forces to save us from them. In order to be safe from these human-enemy forces, may He grant us His security, without which we cannot live even for a moment. The Sixty-first verse of Al-Qur'an... Surah Al-An'am... tells us:




"And He (the Lord) is the All-Mighty, overshadowing His servants (with His immense powers) and (He is) the One who provides you with safety and security, even when it comes to one of you." At the (last) hour of life, then Our Messengers take (the soul of the deceased) into their Custody and they do not show any neglect or negligence (in fulfilling this position).”


The Lord who created such a powerful and fully managed, Flawless & Error Free system when our Hafa

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو