نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گھرکی فضا خوش گوار، زندگی پر بہار

گھرکی فضا خوش گوار،

 زندگی  پر بہار


از:عبدالعظیم رحمانی 

ملکاپوری

::::::::::::::::::::::::::::::::


ہم  انٹرنیٹ کے جس ترقّی یافتہ دور میں جی رہے ہیں یہ اپنے ساتھ  بے شمار آسانیوں، تفریحات اور معلومات کو اپنی انگلی کے اشارے پر رکھتا ہے۔ وقت پر وہ سب 

معلوم ہوجاتا ہے جس کے جاننے کے لیے ایک عمر درکار تھی۔

ہمارا خاندان  بکھراؤ کا شکار اور زندگی تناؤ میں گزر رہی ہے لالچ ،خود غرضی، مادّیت پرستی نےخوشیاں  ہم سےچھین لی ہیں ۔رشتے بکھراؤ اور ٹوٹ پھوٹ  کے شکار ہیں ۔ ہمدردی، اخلاص، دل سوزی معاشرے سے دور ہوتی جارہی ہے۔

ان کا سب سے بڑا سبب ہیں تربیت کی طرف  متوجہ نہ ہونا۔

سیّد ابولاعلٰی مودودیؒ نے بچّوں  کی تربیت کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے  "گھر کو انسان کی تیاری  کا کارخانه  قرار دیا ہے" ۔اسی طرح خوش گوار خاندان  کے لیے گھر کی فضا خوش گوار اور باہم تعلقات خوش گوار ہونا ازحد ضروری ہے۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے مربوط خوش آہنگ و ازدواجی ہم آہنگی  Marital Harmony زندگی گزارنے کے خواہش مند منصوبہ بند طریقے سے اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔پیچھے ہٹنے کی اسپرٹ Receding Spirit کا استعمال بھی دانائی ہے۔۔۔۔۔۔

عائلی زندگی میں  چھوٹے ،موٹے  مسائل، تنازعات، تلخیاں، کھٹی میٹھی باتیں  ہوتی رہتی ہیں ۔گھر کے افراد ہی کسی نہ کسی درجہ میں  اس کے ذمّہ دار ہوتے ہیں۔ کچھ غلط  فہمیاں، چغلی، لگائی بجھائی، بے جا توقعات اور تحفظات Reservations سے ہوتیں ہیں ۔کُھلی آنکھ اور کُھلے ذہن سے امکانات پر سوچنا بلکہ پرامن حل تلاش کرنا خاندان  کے

سربراہ کی سوچ، تجربہ، حکمت، بصیرت، مشاورت، مصلحت، آپسی  موافقت Adjustment، باہمی مفاہمت Understanding فیصلے، تدبیر، احکام اور تربیت پرمنحصر ہے۔


تم چاہو تو دو لفظوں میں طے ہوتے ہیں 

جھگڑے


کچھ شکوے ہیں بے جا مرے ،کچھ عذر تمہارے 


سوال ہے کہ۔۔۔

کیا ساس بہو کا رشتہ حریف یا دشمنی کاہے؟ 

کیا یہ رشتہ  تلخی، بدگمانی، نا انصافی، ظلم، حسد کے بغیر نہیں رہ سکتا؟؟ 

کیا ساس بہو کے درمیان  خوشگوار تعلقات  ممکن نہیں؟؟؟ 

 

سوچنے اور پلٹنے کا بھر پور موقع، امکانات  کو ختم ہونے نہیں  دیتا ۔توکل اور بھروسہ  ہمیشہ  مثبت طا قت اور حو صلہ عطا کرتا ہے۔ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں،  یہ ترقی کی دوڑ میں اپنی اخلاقی اقدار کو پیچھے چھوڑ کر مادّیت، خودغرضی، منفعت، احسان جتانے اور واجبی سے لگاؤ کی آب یاری کررہا ہے۔ ان کی وجہ سےرشتوں سے اخلاص پیار و محبت ،بے غرضی، بے نفسی کی جگہ خودغرضی، نفس پرستی نے لے لی ہے۔نہ صرف یہ کہ اس سے  خاندان، رشتہ داریاں  ،احباب، اقرباء اورمعاشرہ متاثر ہورہا ہے بلکہ اس کے کڑوے کسیلے پھل خوش گواری، مسرت کا گلہ گھونٹ رہیے ہیں ۔طلاق کی شرح میں  اضافہ ہورہا ہے۔مجرد زندگی  گزر رہی ہے۔بچے والدین  کے پیار سے محروم  زندگی گزارنے پر  مجبور  ہیں ۔اس کے اثرات پورے معاشرہ پر نظر آتے ہیں ۔

بڑے اور بچوں میں  تناؤ ہے، نشہ کی لت لگ گئی ہے، بد اخلاقی کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔وقت برباد کرنے والے مشاغل میں دلچسپی لی جاتی ہے۔گھریلو  جھگڑے Conflictsاور کورٹ کچہری  نے سکون کے ساتھ ساتھ  اخراجات کا زبردست  بوجھ بڑھا دیا ہے ۔صبر وتوکل،رواداری، احسان کی روش، درگزر، معافی، حقوق  کی ادائیگی میں کمی واقع ہورہی ہے۔


جو دل کو جیت لے وہ فن ہمارے پاس نہیں 


اسباب وعلاج


(1) ہماری غلط سوچ، غلط ترجیحات اور بے سمت رجحانات ۔

(2) مادیت پرستی، خود غرضیselfeshnes، بے اعتنائی ۔

(4)محبت، مودت، الفت، شفقت ،پیار وہمدردی، نر می، صبر وتحمل کی کمی۔

(5)سہیل پسندی کو اپنانا ، مشقت سے  گھبرانہ اورزندگی میں ڈسیپلین کی کمی۔

(6) آداب زندگی، عمدہ اخلاق اور دینی تعلیم کو عملی زندگی سے دور رکھنا۔

(7) زندگی جینے کا غیر دینی، غیر سائنٹفک، غیر صحت مندانہ طریقہ، بے شعوری، تنگ نظری، 

(8) بُری عادات، نشہ، addiction, 

(9) گھریلو جھگڑے، والدین میں  برداشت کی کمی۔نتیجہ طلاق، خلع کی نوبت۔

(10)موبائل، انٹرنیٹ، اور گیجیٹ کے حوالے زندگی کے قیمتی اوقات کی بربادی۔

(11) رب جو  بگڑی بناتا ہے اس کے حضور دعاؤں کے لیے ہاتھوں کو اٹھانے کی فرصت نہیں۔ آپسی رشتوں کی خوش گواری، بہتری، شیرینی، الفت، مودت، دل کے سروروسکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے دعاؤں کی  کمی۔

(12) رزق حلال،اسلامی معیشت، ایمانداری، صدق مقال سے دوری۔

(13) بات بات پر جھوٹ ،شک،الزام ،بے اعتمادی اور بھروسے کی کمی۔

(14) خوشگور ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے کوشش اور اس ملی جدوجہد کی کمی۔

(15) گھر میں ایثار ومحبت کاعملی نمونہ بننے کی  طرف  توّجہ نہیں ۔

(16) حقوق وفرائض کی احَسن طریقے سے ادائیگی میں  کوتاہی۔

(17)بات بات پر تنقید، تنقیص، تمسخر، تضحیک، لعنت ملامت، عار دلانہ، طعنہ زنی۔

(18)باپ، شوہر کی شکل میں داروغہ  کا وجود۔جس کی ترشی، تُنک مزاجی، عیب چینی اور باز پرس کے اندیشے سے گھر کے سارے افراد ڈرے، سہمے، خوف زدہ رہتے ہوں ۔

(19) رشتہ داروں  بالخصوص  اقرباء، دودھیالی، ننہیالی رشتوں میں وہ مٹھاس اور خلوص  کی چاشنی غائب ہے جو دلوں کو مسرت وانبساط عطا کرتی تھی۔


یہ خاندان  ہمارا بکھر گیا جب سے


مزہ ہمیں کسی تہوار میں  نہیں  آتا


میری زیست پر مسرت، کبھی تھی، نہ ہے، نہ ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ کو بدل کر رکھ دیجیے۔اپنے شریک سفر کا دل جیتیے۔بگڑے ہوئے حالات، معاملات پر اپنی دینی بصیرت اور شعور، علم وتعلیم ،تجربےاور گھریلو تربیت کے سانچے سے بہتر بنانے  کی بھر پور کوشش کیجیے۔


بغیر  ان  کے  گُلستاں عذاب لگتا  ہے


وہ سامنے  ہوں تو کانٹے  سہانے لگتے ہیں 



(عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر ترتیب  کتاب فن تربیت parenting  سے ایک مضمون) 

The atmosphere of the house is pleasant,

spring on life

From: Abdulazim Rahmani

Malkapuri

The advanced age of the Internet that we live in brings with it innumerable conveniences, entertainment and information at our fingertips. all on time

It is known that which took one life to know.

Our family is a victim of disintegration and life is passing in tension. Greed, selfishness and materialism have snatched happiness from us. Compassion, sincerity, warm heart are going away from the society.

Their biggest reason is not being attracted towards training.

Awaking the importance of children's education, Siyid ابولاعلٰی مودودی has declared "the home as the factory for man's preparation". Similarly, for a happy family, it is extremely important to have a pleasant home environment and pleasant external relations. Those who wish to lead a happy married life, want to live Marital Harmony, change their thinking in a planned way. Using the Receding Spirit is also wise.


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو