نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آخری خواہش سے محروم روح

📒میری ڈاٹری سے 


            آخری خواہش سے محروم روح

✒تحریر.... جمیل اختر شفیق تیمی


میرے ایک جاننے والے تھے،ان کی پوری زندگی محنت ومشقت سے عبارت تھی، ہمیشہ مشین کی طرح دوڑتے بھاگتے رہتے تھے ،پریشانیوں اور مشکلات کی بھیڑ میں بھی اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے پوری عمر سرگرم رہے،رفتہ رفتہ کوششیں رنگ لائیں، اللہ نے روزگار میں برکتیں عطاکیں، عالیشان مکان بن گیا،دوکانیں کھُل گئیں، بچے پڑھ لکھ کر کامیاب ہوئے تو مزید ترقی کے راستے آسان ہوگئے، سفر ہزار روپیہ سے شروع کیا تھا کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہوگئے-


 میں گرچہ عمر میں  ان کے بیٹوں کے برابر تھا لیکن حد درجہ قربت اور اپنائیت کی بناپر عمر میں فاصلے کی دیوار تعلق کے ابتدائ دنوں میں ہی ٹوٹ چکی تھی، ان کے چہرے پہ چاہے جتنی افسردگی چھائ ہوئ ہو مجھ سے ملاقات کے بعد وہ بچوں کی طرح کھِل اُٹھتے تھے کم وبیش میرا حال بھی یہی تھا-


پچھلے دس سالوں سے میں  ہر ملاقات پہ اُنہیں میں ایک بات کی اکثر تبلیغ کیا کرتا تھا کہ محترم!  اللہ نے آپ کو بہت نوازا ہے،گھریلو ذمہ داریاں بھی اب بچوں نے اپنے کاندھوں پہ اٹھالی ہیں، اسی لیے پہلی فرصت میں حج کرلیجیے یا پھر اس میں اگر دشواری ہو تو کم از کم عمرہ سے تو فارغ ہو ہی لیجیے، میں جب جب اُنہیں یہ باتیں کہتا وہ ہر بار مجھے  یقین دہانی کراتے تھے کہ عزیزم! دعا کیجیے  اللہ نے چاہا تو ضرور حج کی سعادت نصیب ہوگی، دل میں پختہ ارادہ ہے، تسلی کے یہی دو تین جملے ہر ملاقات پہ وہ مجھے کہہ کر خاموش کر دیتے تھے اور ہربار میری زبان پہ ان کے حق میں اچھی صحت اور نیک تمناؤں کی تکمیل کے لیے دعائیں ہوتی تھیں- صحت سے اچھے خاصے تھے، ہلکی پھلکی دوائیں ضرور لیتے تھے لیکن حرکت وعمل سے بیحد  شگفتہ دکھائ دیتے تھے-


کورونا کی دوسری منحوس لہر شروع ہوئ، رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا تھا ایک روز کال سے انہوں نے خود اطلاع دی کہ عزیزم! تھوڑی کھانسی سردی ہوگئ ہے ،بہت دن ہوئے ملاقات کیے، فرصت ملے تو تشریف لائیں، ان کے اس حکم کی تعمیل کا پختہ ارادہ تھا، تین روز بعد کسی نے خبر دی کہ طبیعت زیادہ علیل ہونے کے سبب ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہیں، مزید تین روز گزرے ہی تھے کہ ایک  رات اس خبر نے میرے پورے وجود کو ہِلاکر رکھ دیا کہ وہ اب میرے درمیان نہیں رہے-


ان کی موت کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا آج بھی ان کی یاد میری راتوں کی نیند چھین لیتی ہے اور میں یہ سوچ کر پریشان ہوتا ہوں کہ کاش انہوں نے حج نہ سہی عمرہ ہی کرلیا ہوتا کیونکہ ان کی اس آخری خواہش کے پورا نہ کرپانے کا ملال مجھے پوری زندگی رہے گا -


دوستو! زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، اللہ نے اگر حلال دولت عطا کی ہے، استطاعت رکھتے ہو تو کسی بھی نیک عمل کو کل پہ مت ٹالو کیونکہ موت کا فرشتہ آپ کے مستقبل کے منصوبوں کو نہیں اللہ کے حکم کو دیکھتا ہے- 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو