نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

توحید ، مجروح انسانیت کا واحد علاج

*توحید ، مجروح انسانیت کا واحد علاج*

*اسانغنی مشتاق رفیقیؔ، وانم باڑی*

*جرعات*


دنیا کے تمام مذاہب اور ادیان میں خدا کا تصور ایک مشترکہ نقطہ اور بنیادی اصول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس اصول کے تحت درج نقطہء نظر میں اختلافات کا ایک لامتناہی سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ کہیں خدا کا تصور اتنا قوی ہے کہ وہ ایک مکمل تانا شاہ کا روپ دھار لیتا ہے جسے کسی کے بھی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے ، وہ بس اپنے آگے تمام مخلوق کو سر جھکائے دیکھنا چاہتا ہے اور ذرا سی کوتاہی پر دردناک سزائیں دیتاہے۔ کہیں خدا کا تصور اتنا دھندلا ہے کہ ایسا لگتا ہے وہ کائنات کی تشکیل کے بعد اس سے بے مطلب ہوگیا ہے۔ اُسے نہ یہاں کے نظام کی کوئی پرواہ ہے نہ یہاں بسنے والی اپنی مخلوقات کی۔ کہیں خدا کے تصور کے ساتھ اس کے معاونین کا تصور بھی کائنات میں تصرف کی قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں خدا کی ذات کے ساتھ اس کی بنائی ہوئی کائنات کو منسلک کر کے خود کو اور کائنات کو خدا کی ذات کا ایک حصہ باور کرا کر ہمہ اوست کو اپنے مذہب کی بنیاد بتایا گیا ہے۔ ان سارے نظریات اور طریقہء فکر کے درمیان خدا کے تصور کے حوالے سے اگر کوئی فطری اور متوازن اصول نظر آتا ہے تو وہ دین اسلام میں ہے۔ 

The concept of God is a common point and basic principle in all religions and faiths of the world. It is another matter that an endless series of differences in the viewpoints listed under this principle goes on. Somewhere the concept of God is so strong that he takes the form of a complete tyrant who is not concerned with anyone's problems, he just wants to see all creatures bow before him and inflicts painful punishments on the slightest infraction. Somewhere the concept of God is so vague that it seems to have become meaningless after the creation of the universe. He cares neither for the system here nor for his creatures living here. Somewhere along with the concept of God, the concept of his assistants also seems to have the power to dispose of the universe; in some places, by connecting the universe created by God with the essence of God, he believes himself and the universe to be a part of God's essence. Kar Huma Aost has been described as the basis of his religion. Among all these theories and methods of thinking, if there is a natural and balanced principle regarding the concept of God, then it is in the religion of Islam.

دین اسلام میں خدا نہ بے رحم تانا شاہ ہے جس کے ساتھ صرف خوف اور ڈر کا تصور منسلک رہتا ہے نہ سبکدوش شہنشاہ جس کا صرف احترام مقصود ہے۔ یہاں خدا کاتصورایک ایسے خالق کا ہے جو اپنی مخلوق سے مکمل جڑا ہوا ہے، جو اپنی پسندیدہ مخلوق بنی نوع انسان کو قول و عمل کی آزادی اور اختیار دے کر اسے نیکی بھلائی اور امن کے راستے پر چلنے کاحکم دیتا ہے اور ایسا کرنے پر اجر عظیم کی بشارت بھی دیتا ہے تو اس کے خلاف ورزی پر عذاب و عتاب کی تنبیہ بھی ۔ خدا کے اس تصور میں وہ معاونین کا محتاج نہیں ہے اور نہ یہاں ہمہ اوست کا کوئی نظریہ ہے۔ وہ جہاں اس کائنات کا مختار کل ہے وہیں رحمان و رحیم بھی ہے اور قہار و جبار بھی۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ اس کو کسی نے جنا ہے۔ وہ ازل سے ہے ، نہ اسے نیند آتی ہے نہ بھوک و پیاس لگتی ہے اور نہ اسے آرام کی ضرورت پڑتی ہے۔ زندگی اور موت، فنا اور بقا صرف اور صرف اسی کے اختیار میں ہیں۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، قادر مطلق ہےاور یہ کائنات اس نے ایک خاص مقصد کے لئے بنائی ہے جس کا مکمل علم صرف اسی کو ہے۔ خدا کے اس تصور کو اسلام توحید کہتا ہے اور یہ نظریہ اس کے بنیادی نظریات میں سے ایک ہے۔ 

توحید کا یہ نظریہ در حقیقت اس کائنات کا فطری نظریہ ہے۔ یہاں موجود بلند بالا پہاڑ سے لے کر ایک چھوٹا سا ذرہ، سورج کا طلوع ہونا اور غروب ہونا، شب کی تاریکی میں روشن چاند کا بڑھنا اور گھٹنا، موسموں کا نظام، ہر زندگی کے پیچھے موت اور فنا، لمحہ لمحہ آشکار ہوتے کائنات کے سر بستہ راز یہ سب اس بات کی آپ خود گواہی دے رہے ہیں کہ ان کا ایک خالق ہے جس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں اور اس پورے نظام کا بغیر کسی انتشار کے مقررہ اوقات پر چلنا اس حقیقت کو یقینی بناتا ہے کہ وہ اپنی صفت خلق و قدرت میں اکیلا ہےکوئی اس کا شریک نہیں۔ سچ پوچھیں تو دنیا کے تمام مذاہب اور ادیان کا یہیں نظریہ ہونا چاہئے تھا اور دستیاب شواہد بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایسا ہی رہا ہے۔ لیکن تاریخ کے گرد میں دب کر اس توحید کامل کی بہت ساری باتیں انسانی ذہن سے محو ہوتی چلی گئیں اور وقت کی گردشوں اور زمانے کے مصائب میں الجھ کر انسانوں میں ظاہر پرستی اور گرد آلود روایات کی تقلید کا رجحان رواج پاتا چلا گیا۔ برا ہو اندھی تقلید، جہالت، جاہلیت اور عصبیت کا، آج یہ حال ہوگیا ہے کہ خالص توحید انسانوں کے ایک بڑی اکثریت کے نزدیک نہ صرف ایک اجنبی اصطلاح بن کر رہ گئی ہے بلکہ قابل نفرت بھی بنا دی گئی ہے۔ 

لفظ پرستی میں مبتلا آج کے انسانوں کی ایک بڑی آبادی چند ظاہری رسم و رواج ، روایات کی تقلید کو ہی اصل سمجھ کر خالص توحید سے اتنی دور جاچکی ہے کہ خود اپنے یہاں رواج پائے ہوئے بنیادی الفاظ کے حقیقی معانی کا اسے ادراک نہیں ہے اور بتائے جانے پر نہ وہ اس طرف متوجہ ہونا چاہتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہرمذہب اور مکتبہء فکر کے علماء اور دانشوروں کا ایک طبقہ اس بات سے مکمل آگاہ ہے لیکن اپنے ماننے والوں کے درمیان عزت و وقار کے کھوجانے کا خوف انہیں عوام کے درمیان حقائق بیان کر نے سے روکے ہوئے ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام مذاہب کے علماء اور دانشور توحید خالص کے اس نکتہ پر اکٹھا ہوں اور دنیا میں امن کی کوششوں کو جلا بخشیں۔ اپنے مذہبی کتابوں میں بیان کئے گئے خدا کے تصور پر جمی وقت کے گرد کو جھاڑ کر اس کے بین السطورمیں چھپے خالص توحید کو بغیر تردد اور خوف کے اپنے ماننے والوں کے درمیان پیش کریں۔ کیونکہ توحید ہی ایک ایسا نظریہ جو انسانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان آج کے اس پر فتن دور میں بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس نظریہ میں انسانوں کو اپنے جانب متوجہ کر کے انہیں ایک ہی لڑی میں پرونے کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ خیر بھلائی اور امن کی کوئی بھی کوشش اس نظریہ کو نظر انداز کر کے وقتی طور پر کامیابی سے ہم کنار تو ہوسکتی ہے لیکن مستقل طور پر نہیں ۔ جنگ و جدال شر اور فساد سے جوجھتا آج کا معاشرہ جتنا اس نظریے کا محتاج ہے شاید ہی کسی زمانے میں رہا ہو۔ ہر وہ شخص جو دنیا میں امن و امان دیکھنا چاہتا ہے اگر اپنی فکر میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہئے کہ اس نظریہ کو عام کرے عوام کو اس کی طرف دعوت دے کہ " اے کتاب والو !اپنے آپ کو کسی مذہب سے وابستہ رکھنے والو! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں تم میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم ایک خدا کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور خدا کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔" کاش! اے کاش! ایسا ہوجائے تو یہ دنیا جنت نظیر نظر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو