نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

میرا کیا قصور.....!

میرا کیا قصور.....!

                    آج پہلی بار دفتر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ بچے کے سوال پر والدین اور میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔

                     اجنبی سے شادی کی ضد سے ناراض والدین لڑکی کو زبردستی دفتر لے آئے۔

                  بچہ- مجھے اس بات کا احساس ہے، دن رات بہت محنت سے، پیٹ کاٹ کر اس نے مجھے لکھنا سکھایا۔ مجھے اس قابل بنایا کہ میں اپنے فیصلے خود لے سکوں، اب جب میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ کیسی آفت ہے۔

                  وہ اب شرمندہ ہیں اور میرے چھوٹے کپڑوں پر اعتراض کرتے ہیں، جب پرائمری سے مجھے ہاف شرٹ اور گھٹنوں کے اوپر اسکرٹ پہنا کر بھیجتے تھے.. تب وہ بہت فخر محسوس کرتے تھے۔

                    اب سر پر دوپٹہ کا معاملہ، ماں ہمیشہ نہیں لیتی، سر پر دوپٹہ۔ بچپن سے دیکھتا آیا ہوں کہ ماں دوپٹہ صرف اذان کے وقت سر پر لیتی ہے اور جب ان کے رشتہ دار گھر آتے ہیں۔ دھوبی، کیبل فروش، دودھ بیچنے والے اجنبی ہیں، ان کے سامنے کیسا پردہ ہے اس کی وجہ سے دادی اماں آپس میں لڑتی رہتی تھیں، پھر آپ نے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور باپ نے دادی کو چچا کے گھر بھیجنے پر مجبور کیا۔ تم دونوں نے اپنی آزادی اور من مانی کے لیے اپنی ماں کو دور دھکیل دیا ہے۔ آج تم میرے ساتھ وہی مذاق کرتے ہو۔ میں تم دونوں کا لائف اسٹائل دیکھ کر بڑا ہوا ہوں۔ میں نے سکھایا ہے کہ آپ جو کچھ کرتے رہے ہیں اسے درست سمجھتے ہیں۔

                      اور ہاں جب گھر والوں اور گھر والوں کے رشتے آئے تو آپ نے ان کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ برابر نہیں ہیں، میں نے بھی ان میں سے دو تین کو ہاں کہا تھا۔

                     بھائی کے بارے میں نہ کہنا بہتر ہوگا۔ وہ نوٹوں کے سامنے کچھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ شروع سے سب کچھ جانتا ہے، میرے دوست، گھومتے پھرتے، میری لیٹ نائٹ پارٹی سب اسے منظور ہے، بس کچھ پیسے دو۔

                  مجھے کچھ غلط نظر نہیں آرہا، لڑکا بالکل ویسا ہی ہے جیسا وہ چاہتا تھا۔ میں اس سے شادی کروں گا۔ بچے کی ہر بات اور دلیل کے سامنے ہر کوئی بے بس اور مایوس نظر آرہا تھا۔ اس لڑکی نے نہ صرف اپنے والدین کو بلکہ آج کے ہر اس والدین کو ایک تھپڑ رسید کیا ہے جو اپنے بچوں کی اندھی اور اندھی محبت کا شکار ہے۔

                       بچوں سے پیار کرنا، ان کی فکر کرنا اور ان کے مستقبل کا خیال رکھنا ہر والدین کا فرض ہے۔ یہ ہر جاندار کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ دنیاوی تربیت بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ دینی تربیت اور ماحول دینا بھی ضروری ہے۔ وہ جو بچوں کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مذہبی ماحول کے بغیر بچوں کو تعلیم دینے کا سیدھا مطلب ہے، ہم بچوں کو مرتد ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ہمیں فطرت سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جو بوتا ہے وہی کاٹو، ہر ایک کی حد مقرر ہے۔ حد سے تجاوز کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

                   ٹھیک ہے، لیکن ایک شرط ہے۔ ان کے دل و دماغ اس شادی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں کچھ وقت دینا پڑے گا؟ لڑکی راضی ہو گئی اور دفتر سے چلی گئی۔ میں اور میرے والدین بھی پریشان ہیں۔

                      مجھے زبردستی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ عقل اور تحمل سے کام لینا پڑتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو بتایا ہے، بچے اکثر چھپ چھپاتے ہیں۔ اور والدین کے پاس اپنے کیے پر پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ہاں یہ والدین کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ بچے کچی مٹی ہوتے ہیں، والدین کے رہن سہن اور سوچ کے سانچے میں خود کو ڈھال کر شکل پاتے ہیں۔

                  اللہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ سب سے پہلے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد اللہ سے معافی مانگیں اور اس سے مدد مانگیں۔ اپنے اعمال پر غور و فکر کر کے اپنے اندر اور گھر کے ماحول میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ بلاشبہ دلوں کو منور کرنے والی ذات وہی ہے لیکن ہمارے دلوں میں وہ تڑپ ہونی چاہیے۔

                   کچھ حقیقت پسندانہ ویڈیوز، بیانات جو آج کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں اور کچھ کتابیں جو دین کو تازگی اور تقویت دیتی ہیں، اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ پر امید رہیں۔‘‘ الوداع کہا۔

                  پوری پوسٹ لکھتے وقت نانی اماں سے بچپن میں سنا ایک محاورہ دل و دماغ پر منڈلا رہا ہے۔

[معلوم / سمجھدار کھانا مکمل کریں]

     بہت لاڈ پیار کرنے والی لڑکی...

     پیارا لڑکا...

                انتخاب فراش

                شادی کے مشیر


[کتاب نکاح کی غلطیاں اور حل] 


What is my fault.....!

                     Today for the first time there was silence like a cemetery in the office. The parents and I kept looking at each other on the child's question.

                      Angry parents forcefully brought the girl to the office against her marriage with a stranger.

                   Child - I have a feeling of this thing, day and night with a lot of hard work, he taught me to write by cutting my stomach. Enabled me to take my own decisions, now that I have decided to get married, what a disaster it is.

                   He is now ashamed and objecting to my short clothes, when he used to send me from primary wearing half shirt and skirt above knees.. then he used to feel very proud.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور