نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ماہ شعبان کی ایک امتیازی فضیلت

ماہ شعبان کی ایک امتیازی فضیلت 

_________________

تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس 


اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ماہ شعبان عموماً عوام کے درمیان صرف اپنی پندرہویں شب کے لیے جانا اور پہچانا جاتا ہے جس کو شب برات کے نام سے مشہور کر دیا گیا ہے. ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر اس رات کو خاص طور پر عبادت کی رات بنا دیا گیا ہے اور بہت ساری وضعی عبادتیں (مثلاً صلاۃ الفیہ،روحوں کے حاضر ہونے کا عقیدہ وغیرہ) اس شب میں انجام دی جاتی ہیں. اس ایک رات کے علاوہ یہ پورا مہینہ عموماً عبادات کے اعتبار سے غفلت اور لاپرواہی میں گزار دیا جاتا ہے جب کہ یہ مہینہ انتہائی عظمت اور فضیلت کا حامل ہے، رمضان المبارک کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے تو وہ یہی شعبان کا مہینہ ہے. اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

The eighth month of the Islamic calendar, the month of Sha'ban, is generally known and recognized among the people only for its fifteenth night, which has been made famous by the name of Shab Barat. On the basis of weak and subjective traditions, this night has been specially made a night of worship and many formal acts of worship (e.g. Salat al-Fiya, belief in the presence of spirits, etc.) are performed on this night. Apart from this one night, this entire month is usually spent in neglect and carelessness in terms of worship, while this month is very great and excellent, apart from Ramadan, the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) is the most in any month. If you were fasting, then it is the month of Shaban. Amma Aisha Siddiqa (may Allah be pleased with her) says:


ما رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ.


"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں پورے مہینے کا روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا. (صحیح مسلم:1156)


شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کثرت سے نفلی روزہ کیوں رکھتے تھے اس سوال کا جواب ایک دوسری حدیث میں ملتا ہے. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :


قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : " ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ "


میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل اٹھایا جائے تو میں روزہ سے رہوں“۔ (سنن نسائي:2357)


اس حدیث سے شعبان کے مہینے کی ایک امتیازی فضیلت یہ معلوم ہوئی کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں. مگر یہ حدیث بظاہر ایک دوسری حدیث سے ٹکراتی ہے. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :


إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ ، وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ حِجَابُهُ النُّورُ


اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، سونا اس کےلائق نہیں ، وہ میزان کو اوپر اٹھاتا اور نیچے کرتا ہے ۔ دن کا عمل رات کے پہلے اور رات کاعمل دن کے پہلے اس کی طرف اٹھا لیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے. (صحیح مسلم:179)


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال اللہ تعالٰی کی طرف روزانہ دو وقت اٹھائے جاتے ہیں. جب کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سال میں ایک بار شعبان کے مہینے میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں. بظاہر دونوں احادیث میں تعارض اور ٹکراؤ نظر آ رہا ہے. اس تعارض کو حل کرتے ہوئے امام سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


يحتمل أمران أحدهما أن أعمال العباد تعرض على الله تعالى كل يوم ثم تعرض عليه أعمال الجمعة في كل اثنين وخميس ثم تعرض عليه أعمال السنة في شعبان فتعرض عرضا بعد عرض ولكل عرض حكمة يطلع عليها من يشاء من خلقه أو يستأثر بها عنده مع أنه تعالى لا يخفى عليه من أعمالهم خافية ثانيهما أن المراد أنها تعرض في اليوم تفصيلا ثم في الجمعة جملة أو بالعكس . ‏


"یہاں دو باتوں کا احتمال ہے، ایک یہ کہ اعمال اللہ کی بارگاہ میں روزانہ پیش کیے جاتے ہیں پھر جمعہ کے اعمال ہر سوموار اور جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں، پھر سال کے اعمال شعبان میں پیش کیے جاتے ہیں، تو ہر ایک پیشی یکے بعد دیگرے ہوتی ہے اور ہر بار عمل پیش کیے جانے کی اپنی ایک حکمت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالٰی اپنی مخلوق میں جس کو چاہے واقف کرا دیتا ہے یا اس کا علم اپنے پاس رکھتا ہے حالانکہ بندوں کے اعمال میں سے کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہوتی. دوسرا احتمال یہ ہے کہ روزانہ جو اعمال پیش کیے جاتے ہیں وہ تفصیل سے پیش کیے جاتے ہیں پھر جمعہ کو اجمالی طور پر پیش کیے جاتے ہیں یا اس کے برعکس ہوتا ہے یعنی روزانہ اجمالی طور پر اور جمعہ کو تفصیلی طور پر پیش کیے جاتے ہیں. (حاشية السندي على سنن النسائي) 


آئیے ہم اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کا عزم کریں، نفلی روزوں کا اہتمام کریں، بدعات و خرافات سے دور رہیں، اپنے دلوں کو بغض اور کینے سے پاک رکھیں تاکہ جب ہمارے سال بھر کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جائیں تو ہم اس کی رضا کے کاموں میں مشغول ہوں. اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور