نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانہ "صیاد اور دام " افسانہ نگار ۔حنیف قمر ممبئی

افسانہ "صیاد اور دام "

افسانہ نگار ۔حنیف قمر ممبئی 

تبصرہ نگار :- سید حسن قائم رضا روشن زیدی گلبرگہ کرناٹک بھارت ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کتنی بد ترین بات ہے کہ آج کل معاشرے میں اوہام پرستی و ضعف اعتقادی وغیرہ انتہائی درجہ تک پہونچ رہی ہے لوگ خصوصاً خواتین ۔۔عاملوں ،منجموں اور سادھو سنتوں کے بچھائے ہوئے جال میں فوراََ پھنس جاتی ہیں ۔۔جب حقیقت آشکارا ہوتی ہے ۔

ہر مزہب میں اوہام پرستی ، ضعف اعتقادی ،جوتشی ، جادوگری وغیرہ وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ۔۔ اور اسلام میں تو ان خرافات کو انتہائی حرام اور گناہ کبیرہ میں گنا گیا ہے ۔۔

جادوگری ،سفلی عملیات ،مسخرات ارواح ،مسخرات اجنا و موکلات ،ان تمام باتوں پر عمل کرنا ،یقین کرنا ،مرشدوں ،عاملوں ،پر اعتماد کرکے اپنے کام کروانا ایسا شخص مرتد ،منافق ،اور کافر ہوجاتا 

"Sayad aur Dam"


Fiction writer Hanif Qamar Mumbai


Commentator :- Syed Hasan Qaim Raza Roshan Zaidi Gulbarga Karnataka India.


. . . .. .. ..


It is the worst thing that in today's society, superstition and blind belief etc. are reaching extreme levels. People, especially women, immediately get caught in the trap laid by astrologers, astrologers and sadhu-saints. When the truth is revealed. .


Superstition, superstition, divination, sorcery, etc. are prohibited in every religion. And in Islam, these myths have been considered extremely forbidden and a major sin.


Such a person becomes an apostate, a hypocrite, and a disbeliever by following all these things, believing in them, relying on the murshids, the workers, and doing their work by trusting in the murshids, agents, etc.


Most women, then men, get caught in the clutches of astrologers, magicians, astrologers, and astrologers and spoil their faith by losing everything.


One of Hanif Qamar's short stories "Sayad and Dam" was published in the Sunday edition of the Deccan Urdu daily Gulbarga. This myth of theirs consists of them being caught in the clutches of Aamal and fortune-tellers, Aamal and Mamul lost each other's wives.

فی زمانہ سب سے زیادہ خواتین ،پھر مرد حضرات ، عاملوں ، مرشدوں ،جادوگروں ،منجموں ،اور جوتشی حضرات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا کر ایمان بھی خراب کر لیتے ہیں ۔

حنیف قمر کا ایک ایک افسانہ "صیاد اور دام " انقلاب دکن اردو روز نامہ گلبرگہ کے اتوار ایڈیشن میں شائع ہوا ۔۔ ان کا یہ افسانہ انہیں عاملوں و جوتشیوں کے چنگل میں پھنس کر ،عامل اور مامول نے ایک دوسرے کی بیویوں کو کھویا پر مشتمل ہے ۔

سراج ، شیوراج ایک شخص دو ناموں سے ہندوؤں میں شیوراج اور مسلمانوں میں سراج کے نام سے شہرت رکھتا ہے ۔۔دونوں ہی فرقوں کا اپنے عمل اور جوتش کے زریعہ ،تعویذ ،گنڈوں وغیرہ سے علاج کرتا ہے ۔۔دونوں ہی فرقوں کے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔۔ایک سیٹھ خالد ہیں جو اس سے اپنا روحانی علاج کرواتے ہیں ۔۔سراج کے پاس آتے جاتے ہیں ۔۔اس کی منت سماجت کرتے ہیں اپنے قلبی سکون کے لیے سراج سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے کچھ کرے ۔۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک زمانے میں سراج ان کا نوکر تھا ۔۔ سیٹھ خالد نے سراج کی بیوی سے ناجائز فایدہ اٹھایا ۔۔اس وجہ سے اس کی بیوی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی ۔۔ سیٹھ خالد اس خودکشی کے بعد سے پریشان رہنے لگے ان کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ڈرونا چہرہ انہیں ڈرا دھمکا رہا ہے اور انہیں جنگلوں میں بھگا لے جاتا ہے پھر ایک اونچی چٹان سے انہیں ڈھکیل دیتا ہے ۔۔

سیٹھ خالد ایک نفسیاتی الجھن ،ایک پریشانی میں گرفتار ہوگئے ۔۔اور اپنے اس علاج کے لیے سراج عامل کے پاس آنے جانے لگے ۔۔کئی مہینوں سے وہ اپنا علاج سراج عامل کے پاس کراتے رہے ۔۔مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا ۔۔

ایک دن آخر وہ اصرار کر ہی بیٹھے کہ آج سراج ان کا مکمل علاج کردے ۔۔

سراج نے ایک ڈرامہ سٹیپ (setup) کیا سیٹھ خالد سے وہ سب کچھ اگلوالیا جو سیٹھ خالد کے دماغ میں پل رہا تھا ۔۔سچائی باہر آجانے کے بعد پولس جو ساری باتیں سن رہی تھی ۔۔ سیٹھ خالد کو خود اپنی بیوی اور اپنے نوکر کی بیوی کے قتل میں گرفتار کر لیتی ہے ۔۔اور پولس سراج سے کہتی ہے کہ وہ پردے سے باہر آجائے ۔۔کیوں کہ اس کی بیوی کا قاتل اس کی گرفت میں ہے ۔۔

مذکورہ بالا افسانہ "صیاد اور دام " حنیف قمر نے بڑی ہی محنت اور کافی عرصہ کے بعد لکھا ہے ان کے افسانے پڑھنے کا تو اتفاق نہیں ہوا میں نے ان کا پہلا افسانہ پڑھا ہے مدیر اعلیٰ کا ایک چھوٹا سا نوٹ یا تبصرہ افسانہ نگار کے بارے میں لکھا گیا ہے جس میں مدیر اعلیٰ نے لکھا ہے کہ گلبرگہ میں اکرام باگ ،اور حمید سہروردی کے بعد فکشن میں جوان نسل منظر عام پر آئی اس کے حنیف قمر بھی ایک رکن ہیں ۔۔حنیف قمر سعودی عرب میں کئی سال سلسلے معاش کے لیے رہے وہاں سے واپس آنے کے بعد انہوں نے ایک چونکادینے والا افسانہ "دایرہ " لکھا پھر وہ ایک لمبے عرصہ تک خاموش رہے ۔۔"صیاد اور دام " لکھ کر انہوں نے خاموشی توڑی ۔۔کوئی ضروری نہیں کے افسانے پر تنقید کی جائے ہر افسانہ اپنی جگہ اچھا ہی رہتا ہے ۔۔افسانے میں اس کا بیان ،اور طرز اچھا ہونا چاہیے ۔۔لہجہ اور جملوں میں ربط ہونا چاہیے ۔۔کہیں کہیں جملے ٹوٹ جاتے ہیں ایک طرح سے قارئین کو وہ ناگوار محسوس ہوسکتا ہے ۔۔زبان اور بیان کی خامیوں کو دور کردیا جائے تو افسانہ شہکار ہوجاتا ہے ۔۔

بحرحال حنیف قمر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ دینے والا افسانہ لکھا اسی طرح اور بھی کئی موضوع ہیں جن پر وہ اپنی طبع آزمائی کر سکتے ہیں ۔۔

تکنیکی اعتبار سے قارئین کو یہ افسانہ پہلی بار سمجھ میں نہیں آئے گا ایک دو بار پڑھنے کے بعد قاری یہ ضرور سوچے گا آخر اس افسانے میں کیا بات ہے ۔۔

افسانے کا انجام چونکادینے والا ہے ۔۔مگر بہت سے افسانے اس طرح کے لکھے جاتے رہے ہیں کہ قارین کو آخر میں انجام کے زریعہ چونکادیا جائے ۔۔یہ تیکنیک پرانی ہوچکی ہے جناب حنیف قمر صاحب اس سے بھی عمدہ افسانے لکھ سکتے ہیں 


افسانہ صیاد اور دام 2005-- میں روزنامہ انقلاب دکن گلبرگہ میں شائع ہوا تھا ۔یہی افسانہ ماہ نامہ تریاق ممبی جون 2022 کو دوبارہ شائع ہوا ہے ۔۔

سید حسن قائم رضا روشن زیدی ۔۔گلبرگہ کرناٹک بھارت ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو