نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*صحیح اردو لکھیں* ۱- دن ہندی زبان کا لفظ ہے

*صحیح اردو لکھیں*

۱- دن ہندی زبان کا لفظ ہے جبکہ روز فارسی کا۔ جہاں کسی مظہر میں تسلسل دکھلانا مقصود ہو وہاں “روز بروز” یا “آئے دن” لکھنا چائیے۔ دن بہ دن لکھنا غلط ہے۔ مثلاً صحیح استعمال یوں ہوگا:

*Write Correct Urdu*


1- Day is a Hindi word while Roz is a Persian word. Where it is intended to show continuity in a phenomenon, it should be written "roz broz" or "aye din". Writing day by day is wrong. For example, the correct usage would be:


کائنات کے بارے میں ہمارا علم روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یا پھر:

بجلی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔


دن بہ دن کے غلط استعمال کی ایک مثال :


دن بہ دن بڑھتی گئیں اس حسن کی رعنائیاں

پہلے گل، پھر گل بدن، پھر گل بہ داماں ہو گئے۔

مگر فلم کے لیے گانے لکھنے والوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ فلمی موسیقی میں دھن پہلے بنتی ہے، شاعر اس پر الفاظ بعد میں لکھتا ہے۔ جہاں وزن، بحر، ردیف، قافیے کی پابندی سے طرز متاثر ہونے کا خدشہ ہو، وہاں اول الذکر کی بخوشی قربانی دے دی جاتی ہے۔ ذرا اس مشہور فلمی گانے کے ردیف قافیے پر بھی غور فرمائیں:

دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

اک دلربا ہے دل میں جو حوروں سے کم نہیں۔

جنت اور حوریں لازم و ملزوم ہی سہی، مگر ہم قافیہ تو ہر گز نہیں ہیں۔


 

۲- سِحر اور سحر کا صحیح تلفظ اور استعمال:


سِحر (س کے نیچے زیر، ح اور ر دونوں ساکن) عربی کا لفظ ہے۔ جادو کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ساحر بمعنی جادوگر اور مسحور (جس پر جادو کیا گیا ہو) بھی اسی قبیل سے ہیں۔

میر صاحب نے اس کا استعمال یوں کیا ہے:

ایسے آہوۓ رم‌خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سِحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

غالب نے اس کو یوں بندھا ہے:


وہ سِحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے

جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں


 

سحر (س اور ح کے اوپر زبر، ر ساکن) عربی کا لفظ ہے اور صبح کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع شجر کی جمع اشجار کے وزن پر اسحار ہے گو کہ جمع کا صیغہ کم استعمال ہوتا ہے۔

استعمال:

غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

نثر میں دونوں الفاظ لکھنے میں ایک جیسے آتے ہیں مگر وزن الگ الگ ہونے کی وجہ سے شعر میں ایک کی جگہ دوسرا لفظ رکھ دینے سے مصرعہ بحر سے خارج ہو جائے گا۔


۳- نظر اور نذر کا درست استعمال:

بعض اوقات ان دو الفاظ کو لکھنے والے گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ نظر کا تعلق آنکھ اور دیکھنے سے ہے۔ اس حوالے سے نظر لگنا یا لگانا، نظر اتارنا، نظر رکھنا، نظر میں رکھنا، نظروں میں آنا، نظروں سے گرنا، نظر چرانا، نظر سے پینا یا پلانا، نظر پھسلنا، نظر کا دھوکہ جیسے محاورے اور اصطلاحات رائج ہیں۔ نظیر مثال یا نقل Replica کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔


نذر کا تعلق بھینٹ، قربانی، منت، چڑھاوے وغیرہ سے ہے۔ اس قبیل کی اصطلاحات میں نذر ماننا، نذر پوری کرنا، نذر کرنا یا کردینا، نذر دینا، نذر ہونا، نذرِ آتش، اور نذر و نیاز جیسی تراکیب اور اصطلاحات رائج ہیں۔


نذر ڈرنے اور ڈرانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً انذار (الف کی زیر کے ساتھ) بمعنی ڈراوا، نذیر یا منذر بمعنی ڈرانے والا، تنذیر بمعنی ڈرانا، وغیرہ۔

ان الفاظ کے صحیح استعمال سے نہ صرف تحریر کی صحیح معنویت آشکارا ہوگی بلکہ امید ہے کہ ایڈیٹر صاحبان کا بھی بہت سا قیمتی وقت بچ جایا کرے گا۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور