نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خواہ مخواہ ★( طنزومزاح) * روزہ قبول * قسط ـ ۱

 ★خواہ مخواہ ★( طنزومزاح)

* روزہ قبول * قسط ـ ۱ 

اردو زبان میں ایسے محاوروں کی کمی نہیں ہے جو مجھ غریب پر فٹ نہ بیٹھتے ہوں ـ جیسے کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے، سر منڈاتے ہی اولے پڑے، یا پھر نماز بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑے ، وغیرہ وغیرہ ـ اس وقت آخرالذکر محاورہ مجھ شریف پر بالکل صادق آتا ہے ـ 

ہوا یوں کہ دین و دنیا سے بے خبر یہ بندۂ ناخدا شام کے وقت حسبِ عادت سیر سپاٹے کی نیت سے نکل پڑا تھا ـ چوراہے تک ہی پہنچا تھا کہ کچھ دینی بھائیوں نے گھیر لیا ـ اور لگے میٹھی میٹھی باتیں کرنے ـ ان کی پیاری پیاری باتوں نے ایسا اثر کیا کہ ہمیں ان پر پیار آیا اور اپنے آپ پر ترس ـ بنا حیل و حجت کئے ہم ان کے ساتھ ہو لئے ـ اور یہی وہ وقت تھا جو ہم پر یہ سب محاورے ایک کے بعد ایک فِٹ بیٹھتے چلے گئے ـ نماز ادا کرکے ہم اپنے کردہ اور ناکردہ اگلے پچھلے گناہوں پر استغفار کرہی رہے تھے کہ شور اُٹھا، چاند نظر آگیا، چاند نظر آگیا ـ ہم تھوڑا سا بوکھلائے تھوڑا سا بولائے حالات کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ پتہ چلا کہ رمضان کے روزے شروع ہو گئے ـ لو بھئی یہاں ہم پر ان سب محاوروں کی تصدیق مکمل ہو گئی اور ہم نماز بخشوائے اور روزے بخشش میں لئے گھر پہنچے تو دروازے پر ہی بیگم نے مبارک باد دی ـ بخشے بخشائے جانے کی یا بخشش پانے کی میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا ـ 

علی الصبح ہم الارم کے بعد بیگم اور بیگم کے بعد الارم کے پے در پے اُٹھائے جانے پر بادلِ ناخواستہ اُٹھ بیٹھے ـ فریش ہوکر ہم باوضو دسترخوان پر با قعدہ تشریف فرما ہوئے تو گھروالوں نے ہمیں کنکھنی انکھیوں سے دیکھنا شروع کیا جیسے معلوم جانوروں کے ریوڑ میں کوئی غیر گُھس آیا ہو ـ لیکن بیگم بڑی خوش تھیں کہ آج ان کے دو دو چاند نکل آئے تھے ـ اور ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی اونٹ بھٹک کر پہاڑ کے نیچے آگیا ہو ـ وہ کِھلی کِھلی سی تھیں اور ہم بجھے بجھے سے ـ سحری کی بسم اللہ تو کی پر کھائے تو کتنا کھائے اور پئے تو کتنا پئے ـ اب اس منہ اندھیرے کی نوش فرمائی میں کوئی پیٹ پر تو باندھ نہیں لے گا ـ جتنا پیٹ کا حجم تھا اتنا تو ہضم کر لئے ـ پھر بھی چودہ گھنٹے کے روزے کا خوف سر پر سوار تھا اور الزام دل پر دھر دیا تھا کہ یہ دل مانگے مور ـ وہ تو خیر سے سحری کا وقت ختم ہوا تو بے صبری کو صبر آگیا ورنہ صابر و شاکر کے ضمرے میں ہمارا شمار مشکل ہی سے ہوتا ہے ـ 

(باقی آئندہ ـ از ـ ملا بدیع الزماں ـ طنزومزاح نگار ـ کتاب خواہ مخواہ. )

...........................................................................

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور