نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانچہ خودار آدمی رونق جمال

 افسانچہ

خودار آدمی

رونق جمال


     وہ چناوی ریلی میں پہلی بار پانچ سو روپے کے عوض آیا تھا ۔ٹھکیدار نے صبح سے ہی اپنے بندوں کوبلا کر سب سے آگے بیٹھا دیا تھا ۔مئ کی دھوپ تین بج رہے تھے اسٹیج خالی تھا کبھی کبھی کوئ بندا آکر اعلان کر دیتا کہ تھوڑی دیر  میں مہمان جلسہ گاہ میں پہنچنے والے ہیں۔ان کے آتے ہی  پروگرام  شروع کردیاجاۓ گا ۔تیز دھوپ پیاس کی شدت اور بھوک نے اسکا حال خراب کر دیا تھا ۔وہ ہاتھ میں تھامے جھنڈے کا رخ بدل بدل کر سورج کی تمازت سے نجات پانے کی کوشش کرتا رہتا ۔

He had come for the first time in Chenavi Rail for five hundred rupees. Kedar had called his servants in the morning and given them to the front.

اچانک شور بلند ہوا آگۓ آگۓ اور اسٹیج پر بھیڑ  دکھائی دی ۔ تقریروں کا سلسلہ جاری ہوا جو بہت اباؤ تھا وہ ہی گھسی پٹی باتیں ۔آخر میں ملک کا چوکیدار مائک پر آیا اور آتے ہی دونوں ہاتھ اٹھا کر نعرہ لگانے لگا اور جنتا سے بھی لگوانے لگا ۔۔۔ اسے حیرت ہوئی کے اسے پانچ سو روپے کے عوض صبح سے  نعرہے لگوانے بھوکا پیاسا بیٹھا کر رکھا گیا اور ملک کا چوکیدار آتے ہی  خود نعرے لگا رہا ہے جبکہ اسی کے لئے یہ پروگرام منعقد کیا گیا تھا اور کروڑوں روپے خرچ کر دیئے گئے تھے ۔اسے لگا تھا وہ مہنگائی کم کرنے ۔بجلی سستی کرنے دوائ اور علاج مفت کرنے آتنک واد ختم کرنے ۔اسکے علاقے سے نکسل ودا ختم کرنے اور کرپشن ختم کرنے کی بات کرے گا  اسے بھی وہی نعرے لگانا تھا تو اس پر کروڑوں کیوں خرچ کر دیئے گئے اور وہ اے سی کی ٹھنڈک میں اسٹیج پر سے نعرے لگا کر جنتا کو بیوقوف بنا رہا ہے ! نعرہ مجھ سے بھی لگوایا جارہا ہے مجھے ساردن دھوپ میں تپنے کے ملے گے صرف پانچ سو روپے ۔!!

نہیں چاہیئے مجھے پانچ سو روپے ۔! اور وہ جھنڈا اسٹیج کی جانب پھنک کر جلسہ گاہ سے نکل گیا ۔ ملک کا چوکیدار اسے حیرت سے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا ۔!!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور