نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد:

Must read ❣️


حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد:

میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔

The cry of an old woman waiting for a halal relationship:


I am currently 35 years old and I am not married yet because it is our family tradition that having a relationship outside the family is a bad thing. We have never had a relationship outside the family.

عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔

میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح ۔لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہیں۔

 میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں ۔

شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں ۔

کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کےساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم ۔

کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا ۔

میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔۔۔۔

اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سورہے ہوتے ہیں بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔


اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفھوم یہ تھا ۔

(اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے ۔

۔

اے حاکمِ وقت، 

اے میرے ابا حضور،

 اے میرے ملک کے مفتی اعظم،

 اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب ،

اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں ؟

کون میرے درد کو سمجھے گا؟ 

میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا ۔

۔

اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا ۔

اے لوگو مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند ۔۔

اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟

یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کےلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔۔۔


یہ کوئی مذاق والی پوسٹ نہیں ہے۔۔۔لازمی سوچیں۔۔۔

ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنی ہے اس لیے سخت الفاظ کے لیے معذرت 

#ایک_لڑکی_کی_فریاد 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور