نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★درسِ قرآن ★ (گذستہ سے پیوستہ) (سورہ التوبہ ـ آیت ۱۱۲)

★درسِ قرآن ★ 

(گذستہ سے پیوستہ)

(سورہ التوبہ ـ آیت ۱۱۲)

اس آیت میں یہ بات واضح ہو گئی کہ نیک مقصد سے سیروسیاحت کرنا سچے مومنوں کا بہترین عمل ھے اور ان اعمال میں سے ھے جن کے ذریعے وہ ایمان کے مدارج طے کرتے اور خصائص ایمانی میں کامل ھوتے ھیں ـ یہی وجہ ھے کہ جس سرعت کے ساتھ صدر اول کے مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور جب تک اسلام کی عملی روح زندہ رھی ان سے بڑھ کر زمین کی مسافتیں قطع کرنے والی کوئی قوم نہ تھی ـ وہ سیاحت کو سیاحت سمجھ کر نہیں کرتے تھے، بلکہ اللہ کی عبادت سمجھتے تھے اور فی الحقیقت سیاحت نہ صرف ایک تنہا عبادت ھے،  بلکہ کتنی ھی عبادتوں کا مجموعہ ھے ـ گھربار چھوڑنا، عزیزواقارب کی جدائی برداشت کرنی، سفر کی مشقتوں میں پڑنا، قدم قدم پر مال خرچ کرنا، آب و ھوا کی ناموافقت، اجنبیوں سے صحبت و معاملت اور پھر ان تمام موانع و مشکلات میں عزم وعمل کا استوار رھنا، ایثاروعمل کی کتنے مرحلے طے کرنے پڑتے ھیں تب کہیں جاکر یہ عمل انجام پاتا ھے ـ اس آیت میں سیر و سیاحت کرنے والے مردوں کو "السائحون " اور سورہ تحریم میں عورتوں کے اسی وصف کو "سٰئحت " فرمایا ـ اور روایات سے ثابت ھے کہ نہ صرف صحابہ کرام کی بی بیاں، بلکہ خود پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات بھی جنگ میں نکلتی تھیں اور مجاھدین کی خدمت کرتی تھیں ـ بعد کو اس بارے میں جو حال رھا وہ شرح و بیان سے مستغنی ھے ـ 

                  بعضوں کو اس پر تعجب ھوا کی سیروسیاحت کا شمار بھی خصائص ایمانی میں ھو، اس لئے "السائحون " اور "السٰئحات " کے لغوی اور مصطلحہ معنی سے گریز کرنے لگے ـ لیکن فی الحقیقت ان کا تعجب محل تعجب ھے ـ قرآن نے ھجرت کو ایمان کا بہترین عمل قرار دیا ھے جو گھربار چھوڑ کر نکلنا ھے ـ اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے فرمایا: "انفروا خفافا و ثقالا" ـ اور حج ھر مستطیع مسلمان پر، مرد ھو یا عورت، فرض کردیاجو باشندگان مکہ کے علاوہ سب کے لیے بڑی سے بڑی سیاحت ھے ـ نیز جا بجا زور دیا کہ ملکوں کی سیر کرو، پچھلی قوموں کے اثار و باقیات سے عبرت پکڑو، ان کے عروج و زوال کے حالات و بواعث کا کھوج لگاؤـ خدا کی قدرت و حکمت کی ان نشانیوں پر غور کرو جو زمین کے چپے چپے میں پھیلی ھوئی ھیں ـ اور اسی سورت میں یہ حکم پڑھو کہ طلب علم کے لیے گھروں سے نکلو اور علم کے مرکزوں میں پہنچو ـ اور تجارت کے سفر کو بھی فضل الٰہی کی جستجو سے تعبیر کیا، حتی کہ حج کے موقع پر بھی اس کی اجازت دی ـ جبکہ سیروسیاحت کے سریح احکام موجود ھیں تو پھر کونسی وجہ ھے کہ یہاں اس وصف کی موجودگی موجب تعجب ھو؟ 

(مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۳۵۰-۳۵۲)

ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 

In this verse, it became clear that traveling with a good intention is the best action of the true believers and is one of the actions by which they set the standards of faith and perfect the characteristics of faith. Muslims of the first president spread all over the world, there is no precedent for this in history, and as long as the practical spirit of Islam was alive, there was no nation that crossed the distances of the earth more than them - they do not think of tourism as tourism. They were, rather, they considered worshiping Allah and in fact tourism is not only a single form of worship, but a collection of many acts of worship - leaving home, enduring the separation of loved ones, suffering the hardships of travel, spending money step by step, water, etc. Unfavorability of the weather, companionship and dealings with strangers, and then maintaining determination and action in all these obstacles and difficulties, how many stages of sacrifice and action have to be decided, then this action is done by going somewhere - In this verse, the men who travel and travel "Al-Saihun" and the same description of women in Surah Tahrim is called "Saiht" - and it is proven from the traditions that not only the wives of the Companions, but also the pure wives of the Prophet of Islam himself went to war and served the Mujahideen. - Later, what happened in this regard is exempt from description


                   Some people were surprised that travel was also counted among the characteristics of faith, so they started to avoid the literal and semantic meaning of "al-Sayhun" and "al-Saihat" - but in fact, their surprise is surprising - the Qur'an has given faith to emigration. It has been declared the best act of Islam which is to leave one's family - and Jihad for the sake of Allah - he said: "Infurwa Khifafa wa Sqaqala" - and Hajj has been made obligatory on every able-bodied Muslim, male or female, which is for everyone except the residents of Makkah. Tourism is the biggest - and it is rightly emphasized that you should visit the countries, take lessons from the relics and remnants of previous nations, explore the circumstances and causes of their rise and fall - consider these signs of God's power and wisdom. which are spread across the face of the earth - and in the same surah read the command that you leave your homes to seek knowledge and reach the centers of knowledge - and also interpreted the journey of trade as a search for God's grace, even the pilgrimage of Hajj. It was also allowed on occasion - while there are clear rules of tourism, then what is the reason why the presence of this attribute is surprising?

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور