نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مردانہ کمزوری کا علاج از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

 مردانہ کمزوری کا علاج

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

Treatment of male impotence

By: Mudassar Ahmad Shimoga Karnataka 9986437327

چندریان چاند پر چلاگیا،چاندکی تصویریں اور ویڈیو زبھی زمین پر بھیج چکاہے،اب چندریان کے تعلق سے اسرو کے سائنسدان مطمئن ہیں،لیکن مسلمانوں کا علمی طبقہ ابھی بھی چندریان کے تعلق سے بہت زیادہ متفکر ہیں،بعض لوگ چندریان کو دجال کی آمد کی نشانی بتارہے ہیں تو بعض لوگ چندریان کے تعلق سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کی کامیابی کے پیچھے مسلم سائنسدانوں کا ماضی بہت اہم کردار اداکرچکاہے اور تاریخی مسلم سائنسدانوں کی جانب سے جوضوابط یعنی فارمولے پیش کئے تھے،اُسی پر عمل کرتے ہوئے آج انسان چاندپر جارہاہے۔یقیناًسائنس کا تعلق قرآن کے علوم سے ہے اور ان علوم سے زمانۂ قدیم کے مسلم سائنسدانوں نے بہت بڑا فائدہ اٹھایاہے اور قرآن کی آیتوں کو ہی بنیادبناکر تحقیق کے میدان میں اپنے قدم جمائے،جسے آج دنیاکی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایاجارہاہے۔یہ لوگ قرآن کے علوم کو عام کرنے کیلئے دارالعلوم کی بنیاد رکھتے ہوئے عام لوگوں کو سائنس اور قرآن سے جوڑنے کی کوشش کررہے تھے۔لیکن زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے معنی بھی بدل چکے،علوم بھی محدودہوچکے ہیں اور مسلم سائنسدان چاول میں کنکرکے برابربن چکے ہیں۔حالانکہ اسرومیں بھی چند ایک مسلم نوجوان بطور سائنسدان کام کررہے ہیں اوران مسلم نوجوانوں نے اپنے علم کو دنیاکے فائدے کیلئے بکھیررہے ہیں۔افسوسنا ک بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے مسلمانوں کی طرف سے سائنس،جغرافیہ،تاریخ،معاشیات،اقتصادیات اور قانون کے علوم میں تعلیم توجاری ہے لیکن یہ تعلیم محض روزی روٹی تک محدودہوچکی ہے۔نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ تحقیقی شعبے میں قدم رکھ رہاہےاور ان کی تحقیقات نہ کہ برابرہے جبکہ غیروں کی تحقیق اور ترقی(ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ وہ آج دُنیامیں اپنے نقوش چھوڑے جارہے ہیں،ان کی تحقیق اور ترقی سے بنی نوع انسان استفادہ کررہاہے۔لیکن جس قوم پر قرآن کا نزول ہوا،جسے پڑھنے کیلئے حکم دیاگیاتھا اور جس قوم کو قرآن سے حکمت حاصل کرنے اور قرآن کے ذریعے کائنات کو جانچنے کاحکم دیاگیاتھاوہ قوم علم طب تک محدود ہوچکی ہے اور یہ علم طب بھی مردانہ کمزوریوں کےعلاج تک ہی محدودہوچکاہے۔ہر اخبارمیں، سوشیل میڈیا اور جابجا در ودیوارپر ان طبی محقیقین(میڈیکل ریسرچرس) کے اشتہارات دیکھے جاسکتے ہیں جو اپنے طبی نسخوں کے ذریعے سے مردانہ کمزوریوں کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔سوال یہ ہےکہ کیا مسلمانوں کی تحقیق یہیں پر آکر رُک چکی ہے؟،بھارت میں 25کروڑکے قریب مسلمانوں کی آبادی ہے،ان 25 کروڑ مسلمانوں میں سے کم ازکم 10 کروڑ نوجوان تعلیم یافتہ ہیں،اگر یہ نوجوان تعلیم یافتہ ہیں تو آخرکہاں جارہے ہیں اور ان کی تعلیم کا استعمال کہاں ہورہاہے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ہمارے یہاں جو تعلیم یافتہ نوجوان ہیں،ان نوجوانوں کی رہنمائی صحیح طریقے سے نہیں ہورہی ہے،ان نوجوانوں کو محض اپنے لئے اپنے بیوی بچوں کیلئے روپئے پیسے کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے،ڈالر اور ریال کی لالچ انہیں بتائی جاتی ہے،جس کی وجہ سے یہ نوجوا ن پیسوں کے پیچھے ہیں نہ کہ دنیامیں آنے کے حقیقی مقصد کو یہ لوگ جاننا چاہ رہے ہیں۔اسرو کے سائنسدانوں کے تعلق سے کہاگیاہے کہ یہ لوگ نہ تو کروڑ پتی ہیں،نہ ہی ان کی تنخواہ کروڑوں میں ہے،لیکن انہوں نے جو کارنامہ انجام دیاہے وہ اربوں روپیوں کی شہرت سے کہیں زیادہ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم نوجوانوں کو صرف پیسوں کے پیچھے نہ لگاتے ہوئے انہیں ان کے دنیامیں آنے کا مقصد بتایاجائے،سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی قوم کانام روشن کرنے کے تعلق سے بیداری لائی جائے۔مختلف علوم کو سیکھنے اور اس کے ذریعے سے دین وملت کی خدمت کرنے کے تعلق سے بھی واقف کرایاجائے۔جنسی کمزوری ہی مردانہ کمزوری نہیں ہے بلکہ واقعی میں مرد وہ ہے جو اپنی زندگی میں کچھ کرجائے اور موت بھی اسے گلے لگائے تویہ کہہ کہ ایک مرد کو میں اپنی آغوش میں لے رہی ہوں۔


Treatment of male impotence

By: Mudassar Ahmad Shimoga Karnataka 9986437327

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور