نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شہاب نامہ سے اقتباس ایگ روز شہاب صاحب کی

شہاب نامہ سے اقتباس

ایگ روز شہاب صاحب کی اپپنی بیگم سے قالین خریدنے کے معاملے پر تکرار ہوگئ .شہاب صاحب سفید قالین خریدنا چاہتے تھے جبکہ بیگم کو اعتراض تھا. لکھتےہیں

Excerpt from Shahab Nama


One day, Shahab wanted to fight with the Begum of Shahab over the right to invest in carpets. Writes.


"عفت اٹھ کر بیٹھ گئی اور استانی کی طرح سمجھانے لگی. 

ہمارے ہاں ابن انشاء آتا ہے پھسکڑا مار کرفرش پر بیٹھ جاتاہے. ایک طرف مالٹے دوسری طرف گنڈیریوں کا ڈھیر

جمیل الدین عالی آتاہے فرش پر لیٹ جاتا ہے سگرٹ پر سگرٹ پی کر ان کی راکھ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیر دیتا ہے. ایش ٹرے میں نہیں ڈالتا. 

ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان دوسرے میںّ زردے کی پڑیا لیے آتا ہے

اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے

ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا. ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گلے کی ٹپکتی ہوئی پیٹی لے کر آئے گاوہ یہ سب تحفے بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں

سال میں کئی بار سید ممتاز حسین بی. اے ساٹھ سال کی عمر میں ایم. اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹن پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتاہے

صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی مکئی کی روٹی اور ساگ مکھن گاؤں سے لاتا ہے تو آتے ہی قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ قرینے سے باورچی خانے میں رکھ دیتا ہے کیونکہ وہ نہ شاعر ہے نہ ادیب بلکہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے

عفت کی بات بالکل سچ تھی لہذا ہم نے صلح کر لی اور ایک میل خوردہ رنگ کا قالین خرید لیا گیا" 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period