نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

‏پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک موقع پر برٕ صغیر کے بے مثل گائیک محمد

‏پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک موقع پر 

برٕ صغیر کے بے مثل گائیک محمد رفیع سے پوچھا کہ رفیع صاحب کوٸ ایسی خدمت جو میں آپ کے لیے بطور بھارتی وزیرٕ اعظم انجام دے سکوں ؟

محمد رفیع نے جواب دیا کہ جناب کوٸ ایسی نعمت نہیں بچی ٕ کوٸ ایسا اعزاز نہیں بچا جس سے اللّہ نے مجھے نوازا نہ ہو ٕ آپ کی عزت افزاٸ کا شکرگزار ہوں۔

البتہ ایک خواہش ہے

پنڈت نہرو” حکم کیجیے ؟

محمد رفیع” حکم نہیں ٕ گزارش ہے کہ دن میں درجنوں بار میرے گانے آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتے ہیں ٕ ہر بار اناٶنسمنٹ میں میرا آدھا نام لیا جاتا ہے ٕ یعنی کہاجاتا ہے کہ ّاب سنیے رفیع کی آواز میں فلاں گانا ّ میں چاہتا ہوں کہ یوں کہا جاۓ کہ ّاب سنیے محمد رفیع کی آواز میں فلاں گانا ّ میرا خیال ہے کہ اللّہ نے مجھے آواز کے نور سے نوازا ہی اس لیے ہے کہ اللّہ کے حبیب کا نام میرے توسط سے سارے عالم میں گونجتا رہے۔

پنڈت نہرو نے اسی وقت سرکاری آرڈر جاری کردیا کہ آج کے بعد ریڈیو پر رفیع کی بجاۓ محمد رفیع کہہ کر اناٶنسمنٹ کی جاۓ۔

آج تک اس حکم کی تعمیل ہورہی ہے۔ 


Pandit Jawaharlal Nehru on one occasion

I asked Muhammad Rafi, the unique singer of the sub-continent, that Rafi sir, any service that I can do for you as the Prime Minister of India?

Muhammad Rafi replied, "Sir, there is no such blessing left, no such honor is left that Allah has not blessed me with. I am grateful for your honor."

However, there is a wish

Order Pandit Nehru?

Muhammad Rafi" is not a command. It is a request that dozens of times a day my songs are broadcasted on All India Radio. Every time half of my name is taken in the announcement. That is, it is said that now listen to Rafi's voice in such and such a song. I want. Let it be said that now listen to such and such a song in the voice of Muhammad Rafi. I think that Allah has blessed me with the light of voice so that the name of Allah's Beloved should be echoed in the whole world through me.

At the same time, Pandit Nehru issued an official order that after today the announcement should be made on the radio by calling Muhammad Rafi instead of Rafi.

This order is being followed till date.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو