نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہاکرس ڈے کے موقع پر خاص مضمون *ہاکر سے مدیر تک*

ہاکرس ڈے کے موقع پر خاص مضمون

 *ہاکر سے مدیر تک* 

 *میرا صحافتی سفر*

• عزیز اللّٰہ سرمست 

Abstract 

Today is the day of newspaper vendors and hawkers. In the true sense, hawkers and newspapers agents are the backbone of newspapers and magazines, but unfortunately, in our society and among the editors and owners of newspapers and magazines themselves, hawkers and newspapers agents have no respect. It is not important, while the fact is that without hawkers and newspapers agents, the circulation of newspapers and magazines cannot be imagined. These people carry out the work of delivering newspapers very diligently in the early morning, but in our country, the newspaper seller is looked down upon, this profession is considered defective, even though our country's missile sheath and former President of the Republic of India, Dr. A.P. Jay Abdul Kalam was a newspaper seller in his childhood, Abdul Hameed, the founding editor of the daily Revolution Mumbai, was also a hawker of his newspaper in the early days. I have no shame in telling you that I started my long journalistic journey as a hawker, but I did it not as a job but to help my friend Mirza Khairullah Baig from Gulbarga. I was a writer in the first daily newspaper, besides them, I was acquainted with three other writers of this newspaper, Muhammad Yusuf Arifi, Ustad Muhammad Iqbal and Muhammad Rafiuddin (all three are deceased, may Allah raise their ranks in Jannah, Amen) and I often met with these four. I used to go to the security office for meetings. It was during those days when I was a student of Dham. Mirza Khairullah Baig used to work as a hawker along with learning literacy. He used to go to deliver newspapers in the morning. used to do Holia with one day suddenly his mother died so he had to go to his native town Dandoti Taluk Chittapur on her request I published the newspaper for about a month as an emergency later when I started my newspaper Bahmani News in 1983 When I started, it was said about me that he was our hawker, but I did not accept any effect of such defamation because it shows my character. I have completed 45 years as a journalist and 40 years as an editor. I always respect and appreciate not only my newspaper but also the hawkers and newspapers agents of other newspapers and magazines. On the occasion, through the young journalist of Seeram, Mubeen Khan, I met Zaif Hawker of the Urdu newspapers of Seeram and congratulated him. I had published it and he was very happy. Through Muhammad Aleemuddin Banda Nawazi, I also published a picture of him congratulating the owner of a book stall in Bidar in the newspapers.

آج اخبار فروشوں ہاکرس کا یوم ہے صحیح معنوں میں ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس اخبارات و رسائل کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اور خود اخبارات و رسائل کے مدیران و مالکان کے نزدیک ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس کی کوئی اہمیت نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس کے بغیر اخبارات و رسائل کی نکاسی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اخبارات و رسائل قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس ہی ہوتے ہیں بارش سردی گرمی کا لحاظ کئے بغیر یہ لوگ صبح سویرے اخبارات پہنچانے کا کام نہایت مستعدی سے انجام دیا کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اخبار فروش کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس پیشہ کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہمارے ملک کے میزائل میان و سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بچپن میں اخبار فروش رہے روزنامہ انقلاب ممبئی کے بانی مدیر عبدالحمید صاحب بھی ابتدائی دور میں خود اپنے اخبار کے ہاکر رہے اس طرح کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس کے بارے میں جس طرح کی نازیباسوچ پائی جاتی ہے وہ بدل نہیں پائی مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میں نے اپنے دیرینہ صحافتی سفر کی شروعات ہاکر کی حیثیت سے کی لیکن میں نے یہ کام ملازمت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے دوست مرزا خیراللہ بیگ کی مدد کیلئے کیا وہ گلبرگہ کے اولین روزنامہ سلامتی میں کاتب تھے ان کے علاوہ اس اخبار کے تین اور کاتبین محمد یوسف عارفی استاد محمد اقبال اور محمد رفیع الدین ( تینوں مرحومین ہیں اللّٰہ جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین) سے میری شناسائی تھی اور اکثر میں ان چاروں سے ملاقات کیلئے سلامتی کے دفتر جایا کرتا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں دہم کا طالب علم تھا مرزا خیر اللّٰہ بیگ کتابت سیکھنے کے ساتھ ساتھ ہاکر کا کام بھی کیا کرتے تھے وہ صبح صبح اخبار ڈالنے جاتے تھے تو کبھی کبھی میں بھی ان کے ساتھ ہولیا کرتا تھا ایک دن اچانک ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو انہیں اپنے آبائی قصبہ دنڈوتی تعلقہ چیتاپور جانا پڑا ان کی درخواست پر میں نے ہنگامی ضرورت کے تحت تقریباً ایک ماہ تک اخبار ڈالا بعد میں جب میں نے 1983 اپنا اخبار بہمنی نیوز شروع کیا تو میرے بارے میں کہا گیا کہ وہ تو ہمارا ہاکر رہا لیکن میں نے اس طرح کی دشنام طرازی کا کوئی اثر قبول نہیں کیا کیونکہ اس سے اپنے اپنے ظرف کا پتہ چلتا ہے میں نے بحثیت صحافی 45 سال اور بحیثیت مدیر 40 سال مکمل کرلئے ہیں میں ہمیشہ اپنے اخبار کے ہی نہیں بلکہ دوسرے اخبارات و رسائل کے ہاکرس اور نیوز پیپرز ایجنٹس کا احترام اور قدردانی کرتا ہوں جب میں روزنامہ کے بی این ٹائمز میں تھا تو یوم صحافت کے پروگرام کے سلسلے میں سیڑم جانے کا اتفاق ہوا تھا اس موقع پر سیڑم کے نوجوان صحافی مبین خان کی معرفت سے سیڑم کے اردو اخبارات کے ضیعف ہاکر سے ملاقات کرتے ہوئے میں نے انہیں تہنیت پیش کی تھی اور ان کی بے لوث خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی تہنیت کی تصویر کے بی این ٹائمز اور مختلف اخبارات میں شائع کروائی تھی جس پر وہ بہت خوش ہوئے محمد علیم الدین بندہ نوازی کی توسط سے بیدر کے ایک بک اسٹال کے مالک کو بھی میں نے تہنیت پیش کرتے ہوئے تصویر اخبارات میں شائع کروائی تھی تب انہوں نے مجھے فون کرکے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ ہر روز اخبارات فروخت کیا کرتے تھے لیکن آج انہیں اخبارات فروخت کرتے ہوئے بے انتہا خوشی ہورہی ہے کیونکہ آج کے اخبارات میں ان کی فوٹو شائع ہوئی ہے میرا ماننا ہے کہ اخبار فروش اور نیوز پیپرز ایجنٹس اردو کے خاموش اور حقیقی خدمتگذار ہیں گلبرگہ میں پٹیل صاحب اور امین الدین سٹی زن لائبریری کی بے لوث دیرینہ خدمات کو کون فراموش کر سکتا ہے ان کے ساتھ ایک اور نام کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے شیخ حسین کا جنہیں اردو کے اخبارات و رسائل کی نکاسی و پذیرائی کا جنون ہے ان کے علاوہ اردو کے کئی خاموش خدمتگذار ہوئے ہیں جنہوں نے اردو کے فروغ کیلئے اپنی زندگیاں لگا دیں لیکن المیہ ہے کہ کوئی انہیں یاد نہیں کرتا نہ ہی ان کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرنے کوئی تیار ہے گذشتہ سال میری تجویز پر مجلس تعمیر ملت گلبرگہ کی جانب سے شیخ حسین کو تہنیت پیش کی گئی تھی ہاکرس کی قدردانی کرنے اور انہیں مناسب سہولیات فراہم کرنے اور ان کی ممکنہ مدد کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو