نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر تدریسی اساتذہ: ایک جائزہ* (انشائیہ) از: جاوید نہال حشمی

*غیر تدریسی اساتذہ: ایک جائزہ* (انشائیہ)


از: جاوید نہال حشمی

 Abstract

It is very possible that this unfamiliar and unorthodox term has caught your attention and as a result you are compelled to read this article. But think for yourself, when educational institutions can have teaching and non-teaching staff, why can't there be a classification of "teaching" and "non-teaching" among teachers on the basis of "process"? The fact is that they have existed in every era. Now it is their misfortune that no one has ever seriously thought of abusing their services

بہت ممکن ہے یہ نامانوس اور غیر روایتی اصطلاح ہی آپ کی توجہ مبذول کرنے کا سبب بنی ہو جس کے نتیجے میں آپ یہ مضمون پڑھنے پرمجبور ہوئے ہیں۔ لیکن آپ خود سوچئے جب تعلیمی اداروں میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے ہو سکتے ہیں تو ”عمل“ کی بنیاد پر اساتذہ میں بھی ”تدریسی“ اور ”غیر تدریسی“ کی تخصیص کیوں نہیں ہو سکتی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا وجود ہر دَور میں رہا ہے۔ اب یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ کسی نے سنجیدگی سے ان کی خدمات پر خامہ فرسائی کی بات کبھی نہیں سوچی ۔تدریسی اساتذہ پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان کا ذکر نہ صرف قرآن و احادیث میں ہے بلکہ ان کی خدمات دنیا کے عظیم مفکروں کے اقوال کا حصہ بھی ہیں۔تعلیم و تعلّم سے متعلق مضامین و کتب ان کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔لیکن غیر تدریسی اساتذہ جو تدریسی اساتذہ کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں اور ان کی جتنی تنخواہ بھی پاتے ہیں، ہمیشہ سے تعصب کا شکار رہے ہیں۔ان پر نہ تو کتابیں لکھی گئیں، نہ ہی مضامین۔ بس کچھ گارجین حضرات نے روزنامہ اخبارات میں ان کے کارنامے اُجاگر کئے لیکن وہ بھی مراسلے کی شکل میں۔حالانکہ ان سے زندگی گزارنے، اور کامیاب زندگی گزارنے، کے بہت سے گُر سیکھے جا سکتے ہیں۔آئیے، ہم ان کے کچھ”اوصافِ خمیدہ“ پر روشنی ڈالتے ہیں جن سے تحریک پا کر ان کے جانشین ان کی روایت کو زندہ و پائندہ رکھے ہوئے ہیں۔

 اس قبیلے کا وجود صرف سرکاری اور نیم سرکاری درس گاہوں میں باقی بچا ہے۔ پرائیویٹ درسگاہوں میں یہ endangered species ہوتے ہیں۔ نتیجتاً بہت جلد ناپید ہو جاتے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں انہیں اپنے وجود کی بقا کے لئے سیاسی سرپرستی کے تحت مکمل تحفظ (یعنی زید پلس سیکیورٹی) حاصل ہوتی ہے۔ یہ عموماً کلاس روم میں توانائی محفوظ رکھتے ہیں تا کہ اسٹاف روم میں ڈی اے اور پے کمیشن کی سفارشات پر زور دار بحث پر اسے خرچ کر سکیں۔ جسمانی توانائی کے تحفظ اور اس کے درست استعمال کے سبب یہ نہ صرف حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر عقابی نگاہیں رکھنے کے قابل ہوتے ہیں بلکہ اپنے رفقائے کار کے حقوق کے لئے لڑنے اور احتجاج میں بھی پیش پیش رہتے ہیں جو ایک بیدار ذہن اور ذمہ دار شہری کی پہچا ن ہے۔ یہ اسٹاف روم سے زیادہ اسکول کے کینٹن میں پائے جاتے ہیں جہاں چائے پہ چرچا کے دوران اپنے استغراق کے سبب گھنٹی بجنے پر کلاس روم میں داخل نہیں ہو پاتے لیکن پیریڈ کی اختتامی گھنٹی بجتے ہی کلاس روم سے نکل کر اپنی اول کوتاہی کی بھرپائی کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وقت پر کلاس روم میں داخل ہونا ”گناہِ کبیرہ“ تصور کرتے ہیں۔

 حکومت نے ”تعلیم سب کے لئے“ پالیسی کے تحت اسکولوں میں نہ صرف مفت تعلیم کا انتظام کیا ہے بلکہ اسکول کے دروازے ہر کسی کے لئے ہمیشہ کھلے رکھنے کی تاکید کر دی ہے۔لہٰذا زیادہ تر سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں کے مین گیٹ دس بجے سے چار بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ نتیجتاً بچے جب چاہیں گھر چلے جاتے ہیں، اور یہ اساتذہ بھی کبھی بازار اور کبھی بینک کا ایک چکر لگا لیا کرتے ہیں۔ 

 ان میں سے کچھ اساتذہ عموماً ہیڈ ماسٹر کے پیچھے پیچھے گھومتے دکھائی دیتے ہیں تا کہ کوئی ان کے پیچھے نہ لگ سکے۔ہمارے اکثر اسکولوں میں سیاسی ریموٹ کنٹرول کے سبب ”ایگزیکیوٹیو پاور“ ہیڈ ماسٹر کی بجائے کلرک یاچپراسی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کی خوشنودی حاصل کرنا ان اساتذہ کا نصب العین ہوتا ہے تاکہ ”سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا“ کے مصداق، یہ تمام آسائش و سہولیات سے فیض یاب ہو سکیں نیز ”اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا“ پر عمل درآمد کر سکیں۔

 کہتے ہیں ایک اچھے ٹیچر کا رويّہ ایسا ہونا چاہئے کہ طلبہ اس سے ڈرنے کی بجائے قربت محسوس کریں اور بلا جھجھک سوالات پوچھ سکیں۔اس معاملے میں غیر تدریسی اساتذہ، تدریسی اساتذ ہ پر سبقت لے جاتے ہیں۔ یہ اپنے طلبا سے سگریٹ، پان اور گُٹ کھا منگوا کر اپنی پُر خلوص دوستی کا یقین دلاتے ہیں۔ بعض تو ہنسی مذاق کی حدوں کو پار کر بےتکلفی کو نئی اونچائیوں تک پہنچا کر طلبہ سے ”ٹیچر آف دی ایئر“ کا خطاب پانے کا حق بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔ لیکن پڑھانے کے معاملے میں یہ روایت سے قطعی انحرف نہیں کرتے۔ ان کے آباواجداد کرسی پر بیٹھے اونگھتے تھے اور ایک طالب علم اپنی جگہ کھڑا اونچی آواز میں کتاب کے کسی باب کی ”تلاوت“ کرتا، دوسرا حصولِ ثواب کے لئے پاس کھڑا استاد کو پنکھا جھل رہا ہوتا، باقی تمام طلبہ کے صوابدید پر منحصر ہوتا کہ وہ جمائیا ں لیں، اونگھیں یا پھر دھینگا مشتی کریں۔ بس اتنا خیال رکھنا ہوتا تھا کہ استاد کے قیلولہ میں کوئی خلل نہ پڑے۔ان کے جانشین موبائل یا اخبار میں غرق ہوتے ہیں اور کئی طلبا اونگھتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔”سونے“ سے ”سلانے“ تک کا یہ سفر ان کی ارتقائی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔

 بیشتر غیر تدریسی اساتذہ نمبر دینے کے معاملے میں بڑے فراخ دل واقع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات فراخدلی کے نشے میں فل مارکس سے بھی زیادہ نمبر دے دیا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تدریسی اساتذہ کے مقابلے میں غیر تدریسی اساتذہ بہت پہلے جوابی کاپیاں جانچ کر حکام کی نگاہ میں سرخ رو ہو جاتے ہیں اور تدریسی اساتذہ کی ”تساہلی“ اور ”سست روی“ کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں۔

 نصاب مکمل کرانے کے معاملے میں بھی یہ تدریسی اساتذہ کے مقابلے کافی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ریاضی کے ہر باب سے ایک سوال حل کر کے باقی تمام سوالات کی ذمہ داری ٹیوٹروں کو سونپ دیتے ہیں جب کہ تدریسی اساتذہ اپنی کمائی حلال کرنے کے چکر میں اپنا آرام حرام کر لیتے ہیں۔غیر تدریسی اساتذہ کا سب سے اہم حربہ ”تصویر کی تدبیر“ ہے۔ یعنی کتاب کی کسی بھی تصویر کی نقل کاپی پر بنانے کا حکم دے کر اس طرح بے فکر ہو جاتے ہیں جیسے فرض سے کوتاہی کی پیشگی ضمانت مل گئی ہو۔بعض ”استاد الاساتذہ“ کلاس میں بیٹھ کر امتحان کی جوابی کاپیاں جانچتے ہیں تاکہ طلبہ کو اس مغالطے میں رکھا جا سکے کہ وہ ”ان کا ہی کام“ کر رہے ہیں اور مدرس اعلیٰ سے بھی حجت کر سکیں کہ وہ ”تدریسی امور“ میں ہی تو مصروف تھے۔ وہ اس عمر میں ”ہوم ورک“ کرنے کے قائل نہیں ہوتے! حالاں کہ اپنے کئی ذاتی”ہوم ورک“ وہ ”کلاس ورک“ کی طرح پیریڈ کے دوران کرتے پائے جاتے ہیں۔

 چھٹیوں کے معاملے میں یہ طلبہ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔انہیں بھی سرخ تاریخ والے کلینڈر بہت بھاتے ہیں۔آسمان پر گھنے بادل چھاتےہی مور ناچنا شروع کر دیتا ہے اور ان کے من میں بھی لڈّو پھوٹنے لگتے ہیں اور دل بلیّوں اچھلنے لگتا ہے کہ حفظ ماتقدم کے طور پر حکام بچوں کو قبل از وقت گھر جانے کے لئے چھٹی کر دینے پر غور کرنے لگتے ہیں۔ یہ جدید تعلیمی تکنالوجی سے لَیس اسمارٹ کلاسز اور اسمارٹ طلبہ دونوں سے خوف کھاتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی ان کی پول کھولنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ 

ویسے ان کی شخصیت کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ مثلاً بیشتر غیر تدریسی اساتذہ اسپورٹس اور ثقافتی تقاریب میں بطور خاص دلچسپی لیتے ہیں۔تعلیمی سیر و سیاحت پر نکلنا ہو یا کسی مقابلے میں اسکول کی نمائندگی کرنے طلبہ کے ساتھ جانا ہو، یہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں بلکہ سفارشیں تک کرواتے ہیں جب کہ تدریسی اساتذہ ان معاملات میں مدرس اعلیٰ کی ہدایات و احکامات کےمنتظر ہوتے ہیں۔ 

ان کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بعض بڑے اچھے لطیفہ گو یا داستان گو ہوتے ہیں اور نصاب کے علاوہ ہر موضوع پر بےتکان گفتگو کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور طلبہ مجبور ہو کر نہیں بلکہ ”مسحور“ ہو کر انہیں سنتے ہیں۔اور جن میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہوتی ان کا اندازِ تدریس ہی وہ کام کر جاتا ہے جو ماں کی لوریاں بھی نہ کر سکیں ! 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو