نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عشق اور مَیں "( مجموعہء کلام ) شاعر : محشر آفریدی - - - اجمالی جائزہ

"عشق اور مَیں "( مجموعہء کلام ) 

شاعر : محشر آفریدی - - - اجمالی جائزہ 


اسلم چشتی پونے (انڈیا) 09422006327 

Abstract

Mahshar Afridi is considered to be the name of national and international Urdu mushairas - the number of listeners who love his words is significant - his popularity is now further increased through social media, electronic media and print media. - Dozens of his poems are preserved in the minds of his listeners and viewers and are also used when needed.

             نیشنل اور انٹرنیشنل اُردو مشاعروں کے حوالے سے محشر آفریدی کا نام جانا مانا جاتا ہے - ان کے کلام کو پسند کرنے والے سامعین کی تعداد اچھّی خاصی ہے - سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اب ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہُوا ہے - ان کے سامعین اور ناظرین کے اذہان میں تو ان کے درجنوں شعر محفوظ ہیں اور وقتِ ضرورت استعمال میں بھی لائے جاتے ہیں - محشر کی یہ خوش نصیبی ہے کہ بہت ہی کم عرصے میں انھیں یہ مقام ملا - لیکن اب تک ان کا کوئی مجموعہء کلام شایع نہیں ہُوا تھا - دیوبند یو-پی کے عبدالرحمن سیف عثمانی کی توجہ اور خصوصی دلچسپی کی وجہ سے بعنوان" عشق اور مَیں " محشر کا کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر جنوری 2018.ء کو منظرِ عام پر آیا - لیکن اب یعنی اگست 2023.ء میں مُجھے اس کا دیدار نصیب ہُوا - کتاب محشر کے کلام کے شایانِ شان بہت خوبصورت شایع ہوئی ہے - جس طرح عام ڈگر سے ہٹ کر محشر کی شاعری ہے اسی طرح عام ڈگر سے ہٹ کر اس کتاب کا سائز ہے - خوش نما رنگین ٹائٹل، بے عیب کمپیوٹر کتابت، مناسب اور واضح فونٹ میں الفاظ جسے ہر عمر کا قاری آسانی سے پڑھ سکتا ہے - یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور اپنے پسندیدہ شاعر کی شاعری پڑھنے کے شوق نے بیچین کر دیا - کاروباری مصروفیات میں سے ٹائم نکال کر مَیں نے اس کا مطالعہ کیا گفتگو آگے بھی ہوگی پہلے میری پسند کے محشر کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں-


    تم جو بچھڑے ہو جلدی بازی میں 

    یار تم روٹھ بھی تو سکتے تھے 


مَیں جانتا ہوں مَحبّت کے بعد کیا ہوگا 

تو کس لیے مَیں تیری زندگی حرام کروں 


تمہیں بھی خواب دکھائیں گے وہ شہادت کے 

مُجھے بھی قتل سے پہلے سلا دیا گیا تھا 


یہ ہجر، آخری پرچہ ہے عشق کا پیارے 

بہت کٹھن ہے، تو کیا امتحان چھوڑ دیں ہم 


 میرے اندر اک خاموشی چیختی ہے 

تو کیا مَیں بھی شور مچا دوں ! بالکل نئی 


مجھکو مر جانا ہے آخر مری مرضی کے بغیر 

اس کہانی کا مُصنّف نہیں کردار ہوں مَیں 


غنیمت ہے پرندے میری تنہائی سمجھتے ہیں 

اگر یہ بھی نہ ہوں تو گھر کی ویرانی سے مر جاؤں 


مَیں تیز دھوپ میں جل کر بھی یاد کرتا ہوں 

وہ سرد رات میں اس کا لحاف ہو جانا 


گناہوں کے لیے انسان ذمّہ دار ہے بیشک! 

مگر پھر بھی بغیر اس کی اجازت کون کرتا ہے 


          اس کتاب میں عبّاس تابش ( لاہور) 

مشرّف عالم ذوقی ( دہلی) عبدالرحمن سیف عثمانی ( دیوبند ) اور محشر آفریدی ( روڈکی ) کے کچھ نثری صفحات بھی ہیں جن کا تعلق شاعر کی شاعری اور شخصیت سے ہے لکھنے والوں نے دل جمعی سے بہت خوب لکھا ہے - اس کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں - 


  " محشر کا شمار مَیں ہندوستان کے اُبھرتے ہوئے نمائندہ شاعروں کی فہرست میں کرتا ہوں، انہوں نے اتنے کم وقت میں ہندوستان اور دیگر ممالک میں جو اپنی جگہ بنائی ہے، تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے، کہ وہ دن دور نہیں جب محشر آفریدی مشاعروں کی ضرورت ہوں گے، مَیں ان کے روشن مستقبل کی دعا کرتا ہوں "


( ص 12، عبّاس تابش لاہور ، کتاب ہذا ) 


      " معروضی حقیقت پسندیدہ سچا اور سفّا کانہ ادراک ان کی مخصوص انفرادی شناخت کا حصّہ ہے، انسانی ذات میں پوشیدہ نہ آسودگیوں اور محرومیوں کو بغیر اپنے لہجے میں تلخی گھولے وہ اپنے عصر کا آئینہ بنا لیتے ہیں - ہجر و وصال کا موضوع ہو یا طولِ شبِ فراق کا ذکر، ایسے ہر مقام پر محشر روایت شکن مصوّر کی طرح سامنے ہوتے ہیں - محشر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنے فکری نظام کے پیشِ نظر وہ نئے موضوعات و لفظیات سے ایک نیا منظر نامہ سامنے رکھ دیتے ہیں - یہ لہجہ عصرِ حاضر اور جدید تقاضوں سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے "


(ص 14 ، مشرّف عالم ذوقی، کتاب ہذا ) 


         " محشر آفریدی ، دورِ حاضر میں غزل کی آبرو اور لازوال شاعری کے علمبردار کی حیثیت سے مشاعروں کی زینت ثابت ہوئے ہیں - آج جبکہ اسٹیج کے شاعر سیاست دانوں کو بُرا کہنے اور اخباری خبروں کو چار چار مصرعوں میں چیخ چیخ کر پڑھنے والی وقتی اور بے کیف شاعری کو معیار بنا رہے ہیں وہیں محشر آفریدی نے غزل کی روایت اور اس کے قدیم رنگ کو نئے لہجے میں دوبارہ زندہ کیا  

ہے "


(ص 15 ، عبدالرحمن سیف عثمانی، کتاب ہذا ) 


             ان اقتباسات سے شاعر محشر آفریدی کی شاعری اور عصرِ حاضر میں ان کے مقام کا بڑی حد تک تعین ہوتا ہے مگر پوری طرح نہیں - تینوں قلمکاروں نے محشر شناسی کی جو کوشش کی ہے وہ قابلِ داد ہے ان تحریروں میں خلوص اور اپنائیت کی خوشبو ہے جسے مَیں نے محسوس کی ہے - میری طرح اور بھی قارئین یقیناً محسوس کریں گے - اس کے باوجود اگر تحسینی صفات کے ساتھ ساتھ فنّی طور پر نقد کے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جاتی تو بہتر ہوتا ، ایسا کیا جاتا تو کتاب کے قاری کو محشر کے ہُنر کے کئی پہلو سامنے آتے اور وہ ان کی شاعری پر مزید غور و فکر کرتا شعر کے مقصد کو سمجھتا، اُسلوب میں لسانی برتاؤ کے راز کو بھی پا لیتا - خیر جو نہ ہُوا اس کی بات کیا کریں - اب بات کرتے ہیں شاعر محشر آفریدی کی تحریر کی جو" مَیں کہنا چاہتا ہوں " کے عنوان سے شایع ہوئی ہے تحریر پڑھنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ محشر نے اس میں خوب کھُل کر کچھ ایسا لکھا ہوگا جسے ان کے سوا کوئی اور بھی لکھ سکتا تھا میرا مطلب ہے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں، تعلیم و تربیت کے متعلق ، شاعری کے ابتدائی دور کے بارے میں، اپنے استاد، استادوں یا اپنے ہم عمر ہم مکتب ہم خیال شاعروں کے بارے میں وغیرہ وغیرہ لیکن اس تحریر میں ایسا کچھ نہیں ہے - جبکہ کسی شاعر کے پہلے مجموعہء کلام میں شاعر کے بارے میں تفصیلات ہوتی ہیں - یہ روایت چلی آ رہی ہے محشر نے اس روایت سے بغاوت کی ہے یہ ان کی ہمّت اور نئی سوچ ہے جس کی سراہنا نہ کرنا ایک طرح کی نا انصافی ہے - 


           " مَیں کہنا چاہتا ہوں " سے تین اقتباسات یہاں دیئے جا رہے ہیں جو شاعر کی سادہ مزاجی، سمجھداری، سنجیدگی اور سچ گوئی کی روایت ( اپنے سلسلے میں لکھے ہوئے ) کو درشاتے اور مجھ جیسے قاری سے داد پاتے ہیں - ملاحظہ فرمائیں - 


     " مَیں نے اپنے پہلے مجموعہء کلام کی اشاعت میں خاص طور سے دو باتوں کا خیال رکھا ہے - پہلی یہ کہ کتاب کے صفحات اتنے زیادہ نہ ہوں کہ وہ عام قاری کی قوّتِ خرید سے باہر نکل جائے - اور دوسری یہ کہ وہ لوگ جو اُردو سنتے سنتے اسے سمجھنے تو لگے ہیں لیکن ابھی روانی کے ساتھ پڑھ نہیں پاتے - یعنی شاعری کا شوق رکھنے والے وہ سامعین جو اُردو داں نہ ہوتے ہوئے بھی شعراء کو سننے کے لیے مُشاعرہ گاہ تک آتے ہیں یا سوشل میڈیا پر بھی شاعر کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لیے مَیں نے کتاب کو اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی رسم الخط میں بھی رکھا ہے "


( ص 21-22 ، کتاب ہذا ) 


          " عشق اور مَیں " - - - - آپ کے سامنے ہے بلا شبہ آپ نے یہ کتاب میری شاعری پڑھنے کے لیے ہی خریدی ہے اس لیے مَیں غیر ضروری باتوں میں آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا - مَیں کہاں پیدا ہُوا، مجھے شاعری کا شوق کب اور کیسے ہُوا، میرے ابّا جان کیا کرتے تھے یا مُجھے ایسا بنانے میں کس کا ساتھ شامل ہے - ان سب باتوں کے لیے آپ بیتی یا خودنوشت لکھی جاتی ہے مجموعہء کلام کا ابتدائیہ نہیں - ہاں اگر پھر بھی کسی کو محشر آفریدی کی زندگی سے اتنی دلچسپی ہے کہ وہ میری حیات کے آج اور کل کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہو تو بذاتِ خود مجھ سے ملاقات کرے ان شاء اللہ اس کو حسبِ خواہش معلومات فراہم کی جائے گی "


( ص 22-23 ، کتاب ہذا ) 


        " نثر لکھنے کا نہ تو تجرِبہ ہے اور نہ ہی سلیقہ اس لیے مزید صفحات سیاہ کیے بغیر اپنی بات ختم کرتا ہوں - اور ہاں جاتے جاتے مَیں عبدالرحمن سیف دیوبندی کا ذکر کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں جن کی توجہات اور کاوشوں سے یہ کتاب آپ تک پہنچی - الف سے لیکر یے تک یعنی اس کتاب کی ترتیب ، سیٹنگ ، ٹائپنگ، ڈیزائنگ، طباعت ، اشاعت ہر چیز میں بڑی دل جمعی اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے عبدالرحمن سیف بہت با صلاحیت نو جوان ہیں "


( ص 23 ، کتاب ہذا) 


         کتاب " عشق اور مَیں ) ایک طرف سے اُردو رسم الخط میں اور دوسری طرف سے ہندی رسم الخط میں شایع کی گئی ہے - یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بہت سارے شعراء کا کلام اس طریقے سے شایع ہُوا ہے - پتہ نہیں یہ تجربہ پہلے کس نے کیا تھا، بہت دن تک چلا اب بہت دن کے بعد" عشق اور مَیں " میں دیکھنے کو ملا - مَیں نے ہندی رسم الخط میں بھی پڑھا بہت احتیاط سے لسانی معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے - ہندی والے صحیح تلفّظ کے ساتھ اشعار پڑھ لیں تو اُردو مزاج، معیار اور تہذیب کی ترسیل ہو پائے گی - اُمیّد کی جا سکتی ہے کہ ایسا ہی ہوگا - اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس میں شاعر کا کوئی قصور نہیں، پڑھنے والے کا قصور ہے - اگر کوئی ہندی والا شعر کو شعر کی طرح پڑھنا جانتا ہو اور بحر وزن سے کم ہی سہی واقف ہو تو اس کے لیے مفید ہے - ہندی کے دیگر قارئین بھی اگر بار بار اشعار کو پڑھیں تو تلفّظ کے ساتھ ساتھ معنی و مفہوم تک آسانی سے اس لیے پہنچ سکتے ہیں کہ محشر آفریدی کی یہ خوبی قابلِ ستائش ہے کہ وہ بہت ہی آسان زبان میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں - بطور خاص سہل زبان میں ان کے اشعار لاجواب ہیں پڑھنے یا سننے کے بعد از خود قاری یا سامع کو یاد ہو جاتے ہیں - 

مثال کے طور پر کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں - 


         آئیے تیزاب لے کر آئے ہیں؟ 

         کیجیے چھڑکاؤ دیکھا جائے گا 


      اُس نے اتنا ٹوٹ کر چاہا مُجھے 

      مجھ پہ اخلاقی دباؤ آ گیا 


         کتنی راحت ہے اس اذیّت میں 

         مستقل دل میں اک چبھن رہنا 


    مَیں اس کو دل کے بدلے جان دے دوں 

    وہ اتنے پر بھی حجّت کر رہا ہے 


            کیسے کیسے خیال آتے ہیں 

             شام ہوتے ہی لوٹ آیا کر 


         اک سمندر کرایا اس نے پار 

         پھر سمندر کے پار چھوڑ گیا 


     یہ پاگل پن ہے صاحب شاعری کیا 

     کہ اک کوزے میں دریا بھر رہا ہوں 


    اس کی رگ رگ میں ہم مہکتے ہیں 

    اس کی سانسوں نے مخبری کی ہے 


           دشمنی دفن کر چکا تھا مَیں 

           پھر وہ جاگیر سے نکل آئی 


       ہواؤں میں مہک ہے تشنگی کی 

       کہیں نزدیک ہی ہے میکدہ کیا؟ 



       اس کتاب میں غزلوں کے علاوہ تین صفحات میں دس قطعات بھی ہیں جو مشہور ہیں بار بار سنے اور پڑھے گئے ہیں - متفرق اشعار چار صفحات پر جو اکیس اشعار پر مشتمل ہیں میری پسند کے تین قطعات اور کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں دل ہی دل میں داد دیں میری پسند پر دعا دیں - 


  جگہ کی قید نہیں تھی کوئی کہیں بیٹھے

   جہاں مقام ہمارا تھا ہم وہیں بیٹھے 

  امیرِ شہر کے آنے پہ اُٹھنا پڑتا ہے 

  لہٰذا اگلی صفوں میں کبھی نہیں بیٹھے 


   دل پر تھا اتنا بوجھ کے ڈھویا نہیں گیا 

   تجھ سے بچھڑتے وقت بھی رویا نہیں گیا 

   میرے بدن سے آج بھی آتی ہے تیری آنچ 

   تو اس طرح گیا ہے کہ گویا نہیں گیا 


 وہ اِس غرور سے رکھتے تھے پاؤں دھرتی پر 

چلیں تو دھول نہیں راستہ اڑاتے تھے یہ وقت جنگلی پرندہ ہے پل نہیں سکتا خلیل خاں بھی کبھی فاختہ اڑاتے تھے 


  گلے لگاؤ تو جیسے سکون ملتا ہے 

  کچھ ایک لوگ بھی تعویذ جیسے ہوتے ہیں 


خوشی سے دور تیرے غم کے پاس بیٹھا ہوں 

بڑے سکون سے گھر میں اداس بیٹھا ہوں 


 کھُلا صندوق ماضی کا کئی چیزیں نکل آئیں 

 پُرانا زخم کھُرچا تھا نئی ٹیسیں نکل آئیں 


   کبھی جو رات تیرا ذکر چھیڑ دیتی ہے 

   ہماری نیند کے بخیے اُدھیڑ دیتی ہے 


نمازِ عشق میرے ساتھ پڑھ……قضا ہی سہی مَیں صرف تیرا ہوں، تیرا… بچا کچا ہی سہی 


   لوگوں سے ملتے ملتے ہی بدنام ہو گیا 

   مَیں اتنا دستیاب ہوا عام ہو گیا 


 یہ کون شخص ہے اِس کو بھرم میں الجھا دو 

 حقوق مانگ رہا ہے دھرم میں الجھا دو 


      " عشق اور مَیں " کا میرے مطالعہ کا تجربہ مُجھے لطف دے گیا - جدید تر غزل سے تعارف ہُوا اور محشر آفریدی کی غزل سوچ، زبان ، اسلوب اور ان کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے لفظوں کے انتخاب اور لفظوں کو برتنے کے طریق سے سیکھنے کو بھی ملا - 


        محشر آفریدی کے پہلے مجموعہ کی اشاعت پر تہہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے مَیں فخر اور مسرت محسوس کر رہا ہوں - 

ان کے مزید مجموعہء کلام کی خواہش کے ساتھ مَیں انہیں کے ایک شعر پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں - یہ شعر تو ان کا ہے لیکن بات میرے دل کی ہے - 


     یہ شہرتیں نئے دشمن بہت بناتی ہیں 

     سنبھل کے رہنا تمہاری ہوا زیادہ ہے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو