نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

 اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جا نا ہے

Abstract

💥 Today is the 63rd death anniversary of Jagar Murad Abadi, the famous poet of Nishshahah-e-Taghzal, the leader of al-Mut-Ghazleen, the prominent poet before Azjad, the famous poet of unknown popularity and melodious lips and tone.




When mushairas are mentioned, Jagar Moradabadi's name is a mushaira because till date no poet has been able to gain the popularity that Murtaza Barlas wrote that Jagar is correct that 'Jaggar came to the city'. The nights of the town started waking up and people's schedules changed and he was born on April 6, 1890 in Moradabad. He had a taste for poetry from the age of 12, 13, but Asghar Gondvi encouraged this passion the most and he himself admitted it.


At the age of 16, Jagar became an alcoholic, but Asghar Gondvi's explanation had such a good effect on him that he gave up alcohol and went to Hajj Baitullah. He went through ups and downs, but the approach he had decided for his poetry, i.e. love, was never separated from him:-


Don't forget about the world, remember your own loyalty


Nothing now, nothing but love


Jigar's entire poetry is from ghazal, if he has written some poems, then the color of ghazal dominates them too, but his real color is ghazal, about which he himself says:- "My poetry is only up to ghazal." It is limited, now beauty and love are my life, except Mustzad, he never dared to step into another field. Ehsan Ahmed Vakil of Azamgarh wrote and published that Maulana Abdul Salam had stated that his second collection of poetry titled "Shaari Toor" was published in Aligarh in 1932. The glory of her name was that Shirazin, a courtesan, who was a woman of great taste and skill, met her in those days and soon had a deep relationship. In certain gatherings, the word of Jigar used to be heard in many houses of Jigar, and a room would be made for them by shining the roof, Jigar Sahib said "Toor". This era has described him that he named it "Flame" and wrote this poem on the title page:- "The crowd was filled with manifestation and became invisible".


His third poetry discussion "Aatish-i-Gul" was published in Dhaka in 1954. In it, Professor Rashid Ahmad Siddiqui's long essay "Jagar Meri Nazar Mein" and the preface by Professor All Ahmad Sarwar were also included in Anjuman Urdu Hind in 1958. . And for this he also received the Saathi Akademi Award. From the words of Jigar's poetry, it begins and ends with love. Lee Thi, who is different from other poets, for this he himself says:- "Perhaps the influence of the believer in my speech is unconsciously present, but I am not convinced of Taqlid that it is acknowledged in my opening speech. But there is a significant influence of Daag, but in my heart it is not the same as his.


Jigar Murad Abadi died on September 9, 1960 in Gonda and was buried in Muhammad Ali Park.

پورا نام : علی سکندر 

تخلص : #جگر


ولادت : 06/ اپریل 1890ء مرادآباد متحدہ ہندوستان 

وفات : 09/ستمبر 1960ء گونڈا اترپر دیش بھارت 


 💥شہنشاہِ تغزل ، رئیس المتغزلین ، ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں ، بے پناہ مقبول اور مترنّم لب و لہجے کے مشہور شاعر” جگرؔ مراد آبادی صاحب “ کا آج 63 واں یومِ وفات ہے💥


مشاعروں کا جب بھی ذکر آتا ہے تو جگر مراد آبادی کا نام آنا ضروری ہے کیونکہ آج تک کسی شاعر کو مشاعروں میں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی جو جگر کو حاصل تھی مرتضیٰ برلاس کا یہ لکھنا درست ہے کہ ’جگر جس شہر میں وارد ہوئے اس بستی کی راتیں جاگنے لگیں، اور لوگوں کے نظام الاوقات تبدیل ہو گئےجگر کاپیدائشی نام علی سکندر تھا اور وہ 06 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئےتھےانکی ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے اردو اورفارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی شاعری کا چسکا انہیں 12، 13سال کی عمر سے ہی لگ گیا تھا لیکن ان کے اس جذبے کو سب سے زیادہ اصغر گونڈوی نے مہمیزدی تھی اور اس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں

حالانکہ جگر 16 سال کی عمر میں ہی مے نوش ہو گئے تھے لیکن اصغر گونڈوی کے سمجھانے کا ان پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ انہوں نے شراب ترک کردی اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے جگر کی زندگی میں بہت سے انقلابات آئے ان کی زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزری لیکن اپنی شاعری کے لیے انہوں نے جو روش طے کر لی تھی یعنی محبت اس سے وہ کبھی الگ نہیں ہوئے:-

" دنیا کی جفا یادنہ اپنی ہی وفا یاد 

اب کچھ بھی نہیں مجھ محبت کے سوا یاد"

جگر کی پوری شاعری غزل سے عبارت ہے اگر انہوں نے کچھ نظمیں کہی بھی ہیں تو ان پر بھی تغزل کا رنگ حاوی ہے لیکن ان کا اصل رنگ غزل ہی ہے جس کے بارے میں وہ خود ہی کہتے ہیں:- ”میری شاعری غزل تک ہی محدود ہے اب چونکہ حسن و عشق ہی میری زندگی ہے اس لیے بعض مستزاد کو چھوڑ کر کبھی دوسرے میدان میں قدم رکھنے کی جرات نہ کر سکا“ جگر کے تین شعری مجموعے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے پہلا شعری مجموعہ سنہ 1922 میں ”داغِ جگر“ کے نام سے شائع ہوا جسے اعظم گڑھ کے احسان احمد وکیل نے مرتب کر کے شائع کیا تھا اس پر مولانا عبد السلام ندوی نے تعارفی نوٹ لکھا تھا دوسرا شعری مجموعہ ”شعلہٴ طور“ کے عنوان سے 1932ء میں علی گڑھ سے شائع ہوا اس کے نام کی شانِ نزول یہ تھی کہ مین پوری میں ایک طوائف شیرازن تھیں، جو بہت ہی مہذب اور باذوق خاتون تھیں جگر کا قیام ان دنوں مین پوری میں تھا ان کی ملاقات شیزان سے ہوئی اور جلد ہی گہرے تعلقات ہو گئے وہ جگر کی شاعری کی دلدادہ تھیں اوراپنی مخصوص محفلوں میں زیادہ تر جگر کا ہی کلام سناتی تھیں جگر اکثر ان کے گھر پر ہی پڑے رہتے تھے ان کے لیے بالائی حصے پر ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا، جسے جگر صاحب”طور“ کہا کرتے تھے اسی لیے جب اس زمانے میں ان کا مجموعہ شائع ہونے لگا تو انہوں نے اس کا نام ”شعلہٴ طور“ رکھ دیا اور سر ورق پر یہ شعر لکھا:-"ہجومِ تجلی سے معمور ہو کر نظر رہ گئی شعلہٴ طور ہو کر" 

ان کا تیسرا شعری مجموعہ ”آتشِ گل“ 1954ء میں ڈھاکہ سے شائع ہوا تھا اس میں پروفیسررشید احمدصدیقی کا طویل مضمون ”جگر میری نظر میں“اور پروفیسر آل احمد سرور کا دیباچہ بھی شامل ہے 1958ء میں دوبارہ اسے انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا اور اس پر انہیں ساہتیہ اکاڈمی انعام بھی ملا جگر کی شاعری عشق سے عبارت ہے وہ عشق سے شروع ہو کر عشق پر ختم ہو تی ہے جگر مراد آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے کر لی تھی جودوسرے شعرا سے الگ ہے اس لئے وہ خود ہی فرماتے ہیں:- ”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پرموجودہے لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں البتہ اس کا اعتراف ہے کہ میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں“

جگر مراد آبادی کا انتقال 09 ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا اور وہیں محمد علی پارک میں سپرد خاک ہوے  


💗 ترتیب و پیشکش : #سید_نوید_جعفری حیدرآباد دکن انڈیا💗


💖 شہنشاہِ تغزل، رئیس المتغزلین، غزل کی دنیا کا ایک معتبر نام حضرت جگر مرادابادی کا آج 63 ویں یوم وفات کے موقع پر انکے منتخب اشعار بطور خراج عقیدت قارائین کی نظر کر رہا ہوں💖


یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے 

اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے


کتابِ عشق کا مشکل ترین باب ہوا 

وہ ایک دردِ محبت جو صرفِ خواب ہوا


کس قدر جامع ہے میرا عالمِ تصویر بھی 

حسن کی تشریح بھی ہے عشق کی تفسیر بھی


تفسیرِ حسن و عشق جگر مصلحت نہیں 

افشائے رازِ قطرہ و دریا نہ کیجیئے 


آج کیا حال ہے یا رب سرِ محفل میرا 

کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا


نگۂ ناز لے خبر ورنہ

درد محبوب اضطراب ہوا


ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش 

شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا


جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت

شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا


جب کوئی ذکرِ گردشِ آیام آ گیا 

بے اختیار لب پہ ترا نام آگیا


جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا


شکستِ حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا 

نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا


ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا 

خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا


کیا جانئے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو 

مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد


حسنِ کافر شباب کا عالم

سر سے پا تک شراب کا عالم


پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب 

کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں


شاعرِ فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں 

روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں


وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ


محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں 

کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں


ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں


اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے 

سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانا ہے


اپنے فروغِ حسن کی دکھلا کے وسعتیں

میرے حدودِ شوق بڑھا کرچلے گئے


یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے 

یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے


ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا 

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا


جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں 

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں


آغازِ محبت کا انجام بس اتنا ہے 

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے


دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں 

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں


مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے 

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ


اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک 

ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے


کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے 

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے


جان ہے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا 

اب نہ وہ داغ، وہ جگر، صرف ہے اِک خیال سا 


کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا

ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے


مدت ہوئی اک حادثٔہ عشق کو لیکن

اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد


معراجِ شوق کہئے، یا حاصلِ تصوّر !

جس سمت دیکھتا ہُوں تُو مُسکرا رہا ہے


اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں 

فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں


وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ 

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ 


یہ ہے عشق کی کرامات یہ کمال شاعرانہ

ابھی منہ سے بات نکلی ابھی ہو گئی فسانہ


کیا کشش حسنِ بے پناہ میں ہے 

جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے


نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیے گا 

جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا

✔️✔️✔️ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو