نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*قمر صدیقی کی نظم نگاری : ایک جائزہ*

 *قمر صدیقی کی نظم نگاری : ایک جائزہ*

مضمون نگار : *قاسم ندیم*

Abstract


Qamar Siddiqui's first poetry collection, Shab Awaz, contains a total of twelve poems. Names of TV Culture, Jeevan Kya Hai, Virtual Reality, Anjeer, Tulsi, Banyan, Peepal, Khabaram Rashit Mansaf, On the Death of Nani, On the Death of Dadi, Bhoot Preet and Asar Sahar.

Qamar Siddiqui started writing poetry from his student days. The influence of Mumbai's lyrical and literary environment initially carried him along, but he managed to carve out a path of his own. Ubaid Azam Azmi and Qamar Siddiqui became the center of attention in poetry recitals and mushairas in their youth. Qamar Siddiqui took the modern requirements of poetry like ghazal seriously. Intellectually, he was closer to Shamsur Rahman Farooqi and modernity. But he did not limit his intellectual dimensions. That's why the vision of expansion is clearly visible in his poems. In terms of quality, he edited his poems very well - he tried his hand at free verse and poem and was successful. Poems like TV Culture Naam and Jeevan Kya Hai reflect his sentiments intellectually. In which a sensitive person feels the distress of his society with all his intensity. Among his poems Khabaram Risit Mansaf, it is remarkable that it is created under a mental mood. In this poem, when Qamar Siddiqi lifts the veils of his self and looks inside, he sees a world illuminated by the glow of facts.

قمر صدیقی کے پہلے شعری مجموعے شب آویز میں کل بارہ نظمیں شامل ہیں۔ ٹی وی کلچر کے نام، جیون کیا ہے ، ورچوئل ریالٹی ، انجیر، تلسی ، برگد ، پیپل ، خبرم رسید امشب ، نانی کی وفات پر، دادی کی وفات پر ، بھوت پریت اور عصر حاضر۔ 


قمر صدیقی طالب علمی کے زمانے سے شعر کہنے لگے ۔ ممبئی کے شعری وادبی ماحول کا اثر ابتدا میں انھیں اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلا ، لیکن وہ اپنی ایک الگ راہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ دور نوجوانی میں ہی عبید اعظم اعظمی اور قمر صدیقی شعری نشتوں اور مشاعروں میں توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ قمر صدیقی نے غزل کی طرح نظم گوئی کے جدید تر تقاضوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اختیار کیا ۔ فکری اعتبار سے وہ شمس الرحمن فاروقی اور جدیدیت سے قریب تر رہے ۔ لیکن انھوں نے اپنی فکری جہات کو محدود نہیں کیا ۔ اس لیے ان کی نظموں میں وسعت نظری کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ ہیئتی اعتبار سے انھوں نے اپنی نظموں کو خوب خوب سنوارا - آزاد نظم اور نظم معریٰ میں طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے ۔ ٹی وی کلچر کے نام اور جیون کیا ہے ، جیسی نظمیں فکری اعتبارسے ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں ۔ جن میں ایک حساس انسان اپنے سماج و معاشرے کی کرب ناکی اپنی پوری شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے ۔ ان کی نظموں میں خبرم رسید امشب ، اس لیے قابل ذکر ہے کہ اسے ذہنی رو کے تحت تخلیق کیا گیا ہے ۔ اس نظم میں قمرصدیقی اپنی ذات کے پردوں کو اٹھا کر جب اندر جھانکتے ہیں تو انھیں وہاں حقائق کے جلوؤں سے منور ایک جہان آباد نظر آتا ہے ۔

قمرصدیقی کی ذہنی اور فکری بلندیوں کو پرکھنے کے لیے نظم ’’عصر حاضر‘‘ کا مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے ۔ اس نظم کی قرأت سے ان کی اس سوچ کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو انھیں حق گو اور بے باک شاعر کے روپ میں پیش کرتی ہے۔

  

ہمیں یہ حکم ہوا ہے کہ دن کو رات کہیں 

اجالے چھوڑ کے اب تیرگی کی بات کہیں 

ہمیں یہ حکم ہوا ہے کہ سچ نہ بولیں اب 

خموشی اوڑھ لیں اپنی زباں نہ کھولیں اب 

ہمیں نہ حکم ہوا ہے کہ جس نے ظلم کیا 

اسے پکاریں مسیحا و چارہ گر کہہ کے

وہ جس کے ہاتھ میں پتھر ہے جبربے حد کا 

مخاطب اس کو کریں لوگ شیشہ گر کہہ کے

وہ ایک شخص جونمرو بھی ہے راون بھی 

وہ ایک شخص ہے انسانیت کا دشمن بھی 

وہ ایک شخص جو فرعون کی طرح پھر سے

 تمام خلق کی خاطر ہوا ہے قہر و بلا

وہ ایک شخص کہ جس سے ہیں لوگ خوف زدہ 

یہ خوف اور یہ دہشت ، یہ حبس کا عالم 

لگائیں جوش سے لبریز پھر سے نعرے ہم 

جگائیں سوئے ہوئے حوصلوں کو سب کے ہم


قمر صدیقی نے اس نظم  کے ہر ایک مصرعے سے جو دور حاضرہ کی تصویر بنائی ہے وہ نہایت ہی دل دہلا دینے والی ہے ۔ ایک ایک لفظ سے ایک ایسے سفاک اور جابر حکمراں کی مکروہ شبیہ بنی ہے جسے دیکھ کر ہٹلر بھی شرمسار ہوجائے ۔ اس حکمران کے احکامات سے سماج کا تانا بانا بری طرح بکھر چکا ہے ۔ ملک معاشرتی اور معاشی تباہ کاریوں کی سمت گامزن ہے ۔ دبی کچلی انسانیت کے ذہنی درد و کرب کی صدا سننے والاکوئی نہیں ۔ سامراجیت کے دلالوں نے اپنے مفاد کی خاطر پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔ یہ پوری نظم اپنے پس منظر میں جس دردناک تباہ حالی کا عکس رکھتی ہے اس عکس سے اپنے ملک اور اپنے ماحول کی فضا سے گہری وابستگی کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کی تفصیل سے قطع نظر در اصل یہاں قمر صدیقی کی اس نہج فکر کی طرف اشارہ مقصود ہے جس کی بدولت ان کا وہ نقطہ نظر تشکیل پایا ۔ جس کی روشنی میں وہ اپنے عصری مسائل کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں کم از کم اتنا اشارہ تو ہمیں اس نظم سے مل جاتا ہے کہ ان کے اظہار میں جن نا آسودگیوں اور تکالیف کا احساس ہوتا ہے وہ انفرادی اور ذاتی نہیں بلکہ جماعتی اور اجتماعی ہیں۔ اور یہ کہ وہ اپنے گردو پیش میں ملک و ماحول کی فضا کو کسی تنگ نظر جذباتی شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ بڑے وسیع النظر خلوص کار کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اور ان کی یہی خلوص نیت اور نظر ہے جس نے قارئین کی روح کی گہرائیوں میں اتر کر ان کے کرب و اضطراب ، تکالیف اور نا آسودگی کی ہر ایک لہر اور جذبے کو ان کے احساس و شعور کی رگوں میں جذب کرکے ان کے فن و فکر کی راہیں متعین اور واضح کر دیں۔ عصر حاضر کے اختتام پر وہ یاسیت کا شکار نہیں ہو جاتے ہیں بلکہ اس خوف اور دہشت کی دبیز چادر سے نجات حاصل کرنے کے لیے حوصلوں کو جگانے کی سمت اشارہ کرتے ہیں۔

قمر صدی کا فن ان کی نظموں میں بڑے وقار اور تازگی کے ساتھ نمو پاتا ہے۔ اردو میں ان دنوں عمدہ نظم کہنے والے جو گنے چنے شعرا ہیں ان میں قمرصدیقی کا شمار ہوگا یا نہیں یہ وقت طے کرے گا ۔ انھوں نے اب تک تقریبا تیس نظمیں قلمبند کی ہیں ۔ ان نظموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نظموں میں گہرے تخلیقی شعور کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں کو شعری آہنگ سے بھی قریب تر ہی رکھا ہے ۔ اس کی عمدہ ترین مثال نظم ’’تلسی‘‘ ہے۔

 

تلسی کا ننھا سا پودا  

صدیوں سے تھا ساتھ ہمارے 

کل تک بھی تھا ساتھ ہمارے 

لیکن آج کہاں ہے وہ 

متھرا ایودھیا برنداون 

گوکل اور بنارس کے 

سارے مندر سونے ہیں 

مذہب تواب ترشولوں میں در آیا ہے

 تلسی کا ننھا سا پودا تھوڑا تھوڑا مرجھا یا ہے


قمرصدیقی نے تلسی کو بطور استعارہ پیش کیا ہے ۔ تلسی استعارہ ہے زندگی کا ' انسانیت کا ، امن اور بھائی چارے کا ، گنگا جمنی تہذیب کا ، محبت ، اخوت اور ہمدردی کا ۔ اس نظم میں سماج کی کرب ناکی پورے فکری وقار کے ساتھ نظر آتی ہے ۔ ان کی نظموں میں سیدھی سیدھی گفتگو کرنے کا انداز تو ہے لیکن کہیں کہیں تیور بدل کر بھی اپنی بات پیش کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اچھوتی تشبیہات سے وہ اپنی نظموں کو سنوارتے ضرور ہیں لیکن گنجلک ہونے نہیں دیتے ۔ اپنے انداز بیان سے نظم کے موڈ کو پیچیدہ نہیں کرتے ۔ انھیں جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں لیکن انتہائی سنجیدگی متانت اور شائستگی کے ساتھ کہتے ہیں۔ اس لیے ان کا احتجاج نظم کے مزاج کو مسخ نہیں ہونے دیتا ۔ تلسی ، نو مصرعوں پر مشتمل نظم ہے۔ پہلے مصرعے میں قمر صدیقی نے لفظ ننھا استعمال کرکے تلسی کے پورے کا وصف بتایا ہے ۔ دوسرے مصرعے میں صدیوں سے ساتھ ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ تلسی یا ریحان کے پودے کا شمار ان نباتات میں ہوتا ہے جن کی افادیت سے انسان کو قدرت نے اپنی ابتدا کے ساتھ ہی آگاہ کر دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب بیمار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آپ ریحان کے پتے کھا ئیں ۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے پتے کھا لیے تو آپ کو شفا حاصل ہوئی ۔ یہ پودا چونکہ بے شمار طبی خواص رکھتا ہے جو اسے زمین پر اگنے والے دوسرے پودوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس لیے ہندومت کے لوگ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا استعمال بطور دوا کئی صدی قبل مسیح سے ہو رہا ہے۔ اسی تاریخی حوالے کو ذہن میں رکھتے ہوئے قمرصدیقی نے دوسرا اور تیسرا مصرعہ تخلیق کیا ہے ۔ چوتھے مصرعے میں انھوں نے استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے۔ اور سوال کیا ہے کہ تلسی کا پودا آج کہاں ہے ؟ جو پودا اپنے کیمیائی خواص کے سب ذہنی تناؤ اور اضطراب اور دماغ کے افعال کو درست رکھنے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے ۔ مشکلات اور پریشانیوں میں درست فیصلہ کرنے کی قوت عطا کرتا ہے اور جسم کو کینسر جیسے مرض سے محفوظ رکھتا ہے ۔ وہ پودا آج کہاں ہے ؟ متھرا ، ایودھیا ، پرنداون ، گوکل دھام اور بنارس ، یہ وہ نام ہیں جو کہ کبھی محبت 'اخوت اور عدم تشدد کی مثال ہوا کرتے تھے ۔ آج ان سبھی مقامات کا تقدس ختم کر دیا گیا ہے ۔ انھیں نفرت ، قتل و غارت گری اور تشدد کا حوالہ بنا دیا گیا ۔ متھرا برنداون ، گوکل دھام کرشن بھکتی اور محبت کی آماجگاہ رہے ہیں ۔ جہاں محبت کے متوالے کرشن کنہیا کی بانسری کی دھن کانوں میں رس گھولتی تھی ۔ ایودھیا میں رام نام کی مالا جپی جاتی تھی ۔ لکشمن کی بھائی چارگی " بھرت کی مثالی قربانی اور سیتا کا ایثار مشہور تھا۔ سیاسی بساط کی خاطر ساری معنوی تلمیحات کو الٹ کر رکھ دیا گیا ۔ محبت کی علامتوں کو نفرت کی علامتوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ گیان واپی مسجد متھرا اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔

ساتویں مصرعے میں قمرصدیقی نے کہا ہے کہ سارے مندر سونے ہیں ، یہ سونا پن کہاں سے درآیا ہے ؟ جب برون میں بہت زیادہ شور و غوغہ ہو ، نفرت کی آندھی چل رہی ہو، کئی معصوم اور بے گناہ جانیں تلف ہو رہی ہوں تو ایسے دور میں جو منادر ہیں ان میں بھگوان کیوں کر براجمان ہو سکتے ہیں ؟ جب بھگوان ہی براجمان نہ ہوں گے تو ایسے منا درسونے ہو جائیں گے ۔ منادر کبھی مذہب یا دھرم کا گہوارہ رہے ہیں۔ اسی نکتے کو قمرصدیقی نے اجاگر کیا ہے کہ مذہب اب منادر میں نظر نہیں آئے گا بلکہ اسے اب ترشولوں تک سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ اس نظم کا اختتام انھوں نے جس انداز سے کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ جب دھرم کو تر شول تک محدود کر دیا گیا اس بنا پر محبت کی علامت تلسی کا پورا تھوڑا تھوڑا مرجھایا ہے ۔ دور حاضرہ میں ایک مخصوص جماعت اپنے مقاصد کی برآوری کے لیے مسلسل نفرت کی فصل بورہی ہے جس کے سبب ایک ایسا معاشرہ وجود میں آرہا ہے جس میں جابر اور مجبور ، ظاہر اور مقہور افراد کے درد و نشاط حزن و خوشدلی ، سفاکی اور تحمل ، کمینگی و وسیع المشربی ، محبت و کدورت یاس انگیزی و امید پرستی کی زیریں لہریں موجود ہیں ۔ نئے نئے اسرار و رموز متحیر کرنے کی حد تک واضح ہوتے جارہے ہیں۔ فاشزم اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ امن و امان کو غارت کرنے ، خوف و تردد کی فضا بنانے میں جٹا ہوا ہے۔ جو پودا ذہنی انتشار ، اضطراب، دماغی افعال کی درستی اور کینسر جیسے موزی مرض سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کا کام کرتا ہے ۔ وہی تلسی کا پودا ناشرم جیسے کینسر کے سامنے مرجھانے لگا ہے ۔ امید پرستوں کو تلسی کے ننھے سے پودے کی آبیاری کرنا ہوگی ۔ یہی پیغام قمرصدیقی نے دیا ہے ۔ 

قمر صدیقی اپنے ارد گرد کے جس زہر کو برسوں سے پیتے چلے آرہے ہیں ان کی تمام شاعری ان ہی زہرناک حقائق اور تلخ مسائل حیات سے آنکھیں ملانے کی جرأت اور ہمت مردانہ کی پُر عزم و جنوں خیر آواز ہے کیوں کہ اس اظہار کے پس پشت تخیل کاری اور وقتی جذباتی مفاہمت نہیں ۔ بڑی ٹھوس بنیادوں پر استوار ذہنی ، جسمانی ، اور جذباتی وفاداری کا عقلی فیصلہ ملتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی نظر انداز کرنے کی نہیں ہے کہ سستی جذباتیت اور عقلی فیصلہ کی یہ منزل شاعر کے لیے بڑی جاں گداز منزل ہوتی ہے ، اور یہ مقام اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان شعوری اور ذہنی طور پر معاشرے کی رفتار سے واقف ہو اور ارتقا نیز فلسفہ تغیر کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو اور منزل پیش نظر ہو ۔ قمر صدیقی کا مطالعہ بے حد عمیق ہے. نی نسل میں شاید ہی کوئی شاعر و ادیب ایسا ہو جو ان کی طرح مطالعے کو اپنی جان سے زیادہ عزیز گردانتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ قمرصدیقی کا ذہن اس لحاظ سے نہایت ہی روشن اور پختہ کار نظر آتا ہے ۔

نظم ' ٹی وی کلچر کے نام ' میں جو زہرناکی در آئی ہے کہ اپنی آنکھیں گروی رکھ کر ہم نے خریدے ٹی وی چینل ' یہ اسی عمیق مشاہدے اور مطالعے کے سبب ممکن ہے یہاں تک ہم نے قمرصدیقی کے نقطہ نظر کو ان کے دور کے تاریخی حقائق اور واقعات کی روشنی میں دیکھا ہے اس کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ جب ہم ان کے شاعرانہ ذہن کو ان کے دور کے معاشی ، معاشرتی اور طبقاتی روابط میں جانچنے کی طرف بڑھیں تو ہمیں واضح طور پر ان کے تاریخی شعور کا احساس بھی رہے۔ بنیادی طور پر کسی بھی ادیب یا شاعر کے ذہن کو اور اس کی تخلیقات کو تاریخی اور معاشرتی خانوں میں بانٹ دینا اس کے فن کے ساتھ زیادتی ہے ۔ البتہ مروجہ معیار فن کے تقاضے بھی ہوتے ہیں ، اور اس کو وسعت بھی ملتی ہے ۔ ان افکار و خیالات و تجربات کے اظہار کی یہ نوعیت جس میں سماجی حقائق اپنی طبقاتی شکل میں یا شعر میں ڈھلتے ہیں یہ تمام تر خارجیت ہی ہو سکتا ہے نہ داخلیت محض ہی کے سہارے ایسا ممکن ہے ۔ افکار و خیالات اگر خارجی ماحول کی فضا کے مشاہدے اور مطالعے سے جنم لیتے ہیں تو اظہاری قوت شاعر کے درون سے حاصل ہوتی ہے یہ قمرصدیقی کی شاعری سے مترشح ہوتا ہے۔ اظہار بیان ، انداز بیان یا اسٹائل کا مروجہ فنی مفہوم کہلاتا ہے جو شاعر کی اپنی مخصوص ذہنی روش و ساخت اور انفرادی شخصیت سے بنتا ہے ، جو کہ فنکارانہ شعور کا عکس ہوتا ہے ۔ یہ عکس اپنی تہذی اور معاشرتی روح عصر کے سائے میں فروغ پاتا ہے ۔ چنانچہ فن و ہی مکمل اور انداز بیان وہی قابل قدر ہوتا ہے جس کے مطالبات اور مطائبات فنکار کی نظر اور اس کے شعور کو اپنا اور محض اپنا ہی نہ بنالے بلکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے مافی الضمیر کو زیادہ خوب صورتی اور زیادہ حسن کے ساتھ ادا کر سکے ۔ فکروفن کے ان مطالبات کی روشنی میں قمرصدیقی کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے بہتر ہے کہ ان کی نظموں کا گہرائی سے مطالعہ کریں ۔ جن سے ان کے انداز بیان کے فکری و فنی پہلو سامنے آسکیں ۔ 

ان کی نظموں کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی شاعری میں فکر و تدبر کا عنصر نمایاں ہے وہ پڑھنے والوں کونئی سوچ اور نئی فکر سے ہم کنار کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب دلکش اور دل آویز ہے ۔ جو کہ عمدہ شاعری کے لیے از حد ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون نگار اردو کے ممتاز مترجم ، نقاد اور شاعر ہیں۔ 

مضمون نگار سے رابطہ : 9029308539 +91

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period