نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فلسطین اور مسلمان!!! از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک

فلسطین اور مسلمان!!!

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

Abstract

The war between Palestine and Israel is still going on, millions of people have been displaced, thousands of people have been martyred, Muslims have no helpers in Palestine, all those who are enemies of Islam and Muslims have gone with Israel, in these countries. Including India, which has a biased attitude towards its own citizens. On the one hand, the war between Palestine and Israel continues, on the other hand, the rulers of the Islamic world have opened their front against these attacks, and these attacks are being condemned continuously. These attacks are being described as barbaric and inhumane. These condemnation statements are from the countries that are called the superpowers of Muslims.


  On the one hand, the United States and England are helping Israel through their military forces and soldiers, delivering warships, cannons and bullets to Israel. On the other hand, countries like Saudi Arabia, Kuwait and the Emirates are helping the Palestinians. They are working on a war scale to deliver bread, butter, jam and food pills. Israel is not a country that is difficult for the Arabs to reach or to wipe out. What has been done is a dark chapter to be written in history. If you look at Saudi Arabia, there is only an army of 257,000 and they also have modern weapons, but on this serious occasion, the different Muslim countries of the world, including Saudi Arabia, are standing with their hands tied.

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اب بھی جنگ جاری ہے،لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں،ہزاروں لوگ شہید ہوچکے ہیں،فلسطین میں مسلمانوں کا کوئی یارومددگار نہیں ہے،اسرائیل کے ساتھ وہ تمام ہوچکے ہیں جو اسلام اورمسلمانوں کے دشمن ہیں،ان ممالک میں بشمول بھارت بھی شامل ہوچکاہے جو اپنے ہی باشندوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھتاہے۔ایک طرف فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے تو دوسری طرف عالم اسلام کے حکمران ان حملوں کے خلاف اپنا مورچہ کھول دیاہے،مسلسل ان حملوں کی مذمت کی جارہی ہے،ان حملوں کو وحشیانہ اور غیر انسانی قراردیاجارہاہے۔یہ مذمتی بیانات اُن ممالک کی طر ف سے ہیں جو مسلمانوں کے سوپر پائورکہلاتے ہیں۔سعودی عرب ہویا امارات ،پاکستان وانڈونیشاہر ملک کے مسلم حکمران فلسطین 

 کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہارکرہے ہیں۔ایک طرف امریکہ اور انگلینڈ اپنی فوجی طاقتوں اور فوجیوں کے ذریعے سے اسرائیل کی مددکررہے ہیں ،جنگی جہاز،توپ اور بندوق کی گولیاں اسرائیل کو پہنچارہے ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب ،کویت اور امارات جیسے ممالک فلسطینیوں کو بریڈ،بٹر جام اور کھانے کی ادویائی گولیاں پہنچانے کیلئے جنگی پیمانے پر کام کررہے ہیں۔اسرائیل کو ایساملک نہیں ہے جس تک پہنچنا یا جسے صفحہ ہستی سے مٹاناعربوں کیلئے مشکل ہے،محض94 لاکھ کی آبادی والے اس ملک نے جس طرح سے عرب ممالک کوناکارہ کردیاہے وہ تاریخ میں لکھنےجانےوالاتاریک باب ہے۔دیکھاجائے تو سعودی عرب میں 2لاکھ57 ہزار کی صرف فوج ہے اور ان کے پاس جدید ہتھیاربھی ہیں،مگر اس سنگین موقع پر سعودی عرب سمیت دنیاکے مختلف مسلم ممالک جس طرح سے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں وہ اس بات کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ مسلمان صرف مذمت و دعائوں تک ہی محدودہوچکے ہیں۔مسلمانوں کے ذریعے سے دعائوں کا سیلاب اُمنڈرہاہے،آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہورہی ہے،ہاتھ اُٹھا اُٹھاکر اسرائیل پر لعنتیں بھیج رہے ہیں،لبیک یا اقدس کے نعرے بلندکررہے ہیں،نعرۂ تکبیر بھی پکاراجارہاہے،اپنی تنظیموں واداروں کے ذریعے فلسطین یکجہتی کامارچ نکال رہے ہیں،وی سپورٹ فلسطین کا اسٹیٹس کم وبیش ہر سوشیل میڈیاپر لگاہواہےاور اہلِ عرب کو گالیاں میں مسلمان پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسابھی ہے جو فلسطین کی جنگ کو غلط قرار دے رہے ہیں،فلسطینی جہاد کو غیر اسلامی کہہ رہے ہیں،سوشیل میڈیاپر یہ بحث کی جارہی ہے کہ قبلہ اول کعبہ ہے یا مسجد اقصیٰ،سوشیل میڈیاپر حماس کو شیعہ اور سُنی میں بانٹاجارہاہے،سوشیل میڈیاپر حماس کو مجاہدین یا پھر دہشت گرد کا نام دینے کے سلسلے میں اہلِ علم حضرات مناظرے کررہے ہیں،وہیں فلسطین میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی لاشوں کے سامنے جہادکا نعرہ فلسطینی لوگ لگارہے ہیں۔اس درمیان ایک ویڈیو ایسی آئی جس میں ایک فلسطینی کہہ رہاہے کہ ہمارا حماس سے کوئی واسطہ نہیں ہے،حماس ہماری نمائندہ تنظیم نہیں ہے،حماس ہماری قیادت نہیں کررہی ہے۔اسی ویڈیو کی بنیادپرمسلمانوں کا اہلِ علم طبقہ یہ کہہ رہاہےکہ دیکھو خود فلسطینی ہی اس جنگ کے خلاف ہیں اور حماس کی تائیدمیں نہیں ہیں۔ایسا کہنےوالااہلِ علم کا طبقہ یہ شائد بھول چکاہے کہ ہر علاقے میں منافق موجودرہتے ہیں،ہر علاقے میں مخبر رہتے ہیں،ہر علاقے میں حکومت کیلئے کام کرنےوالے ایجنٹ رہتے ہیں،ہر علاقے میں مسلمانوں کے درمیان ہی غدارپائے جاتے ہیں اور ہر علاقے میں میر صادقوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ہمارے اپنے علاقوں کا جائزہ لیں کہ کس طرح سے اپنے ہی لیڈروں کو لوگ بد ظن کرتے آئے ہیں،اپنے ہی قائدین پر تہمتیں لگاتے آئے ہیں،ایسے میں فلسطینی کے ہی کچھ لوگ حماس کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں تو یہ کوئی تعجب کرنے کی بات نہیں ہے۔اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ حماس ،فلسطین اور اسرائیل کی بات الگ ہے،خودمسلمانوں میں مقامی سطح پر اتحادنہیں ہے،ایک علاقے میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت ہوتاہے تو دوسرے علاقے کے مسلمان یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں تو یہ معاملہ تو اُس علاقے میں پیش آیاہے تو کیونکر ہم اپنی زبانیں کھولیں،کیوں ہم اُن مظلومین کا ساتھ دیں؟۔جب مسلمان اپنے ہی علاقے کے مسلمانوں کے تعلق سے تشویش کااظہارنہیں کرتے،جب مسلمان ماب لنچنگ میں شہیدہونےوالے ایک مسلمان کے گھروالوں کے تعلق سے اظہارِ یکجہتی نہیں کرتے،فرقہ وارانہ فسادات میں متاثرہونے والے مسلمانوں کی مددکرنےکیلئے آگے نہیں آتے،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بڑے بڑےممالک کے سربراہان دوسرے ملک کے مسلمانوں کے تعلق سے فکرمندہوکر اُنہیں بچانے کیلئے اپنی طاقت کا استعمال کریں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو