نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جب توپ ہوسامنے توکیمرہ نکالو*

*جب توپ ہوسامنے توکیمرہ نکالو*

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327


Abstract

Whenever there are communal riots in the country and Muslims are oppressed, the houses of Muslims are burnt, Muslims are defamed, at such a time the media leaves no opportunity to defame Muslims and raise their voice against Muslims, the voice of the oppressed. Instead of standing with the oppressors, it has become the trend of the media today. In the same way, when the Muslims and other minorities are oppressed, instead of standing in support of the minorities, the police stand with the sectarians and persecute them. As many ways as possible, following those methods becomes their first duty. For the last several years, we have been hearing the same thing in these situations that the media is not with the Muslims, the media is not the voice of the Muslims.

جب بھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم ہوتاہے،مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے ہیں،مسلمانوں کو بدنام کیاجاتاہے،ایسے وقت میں میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنےاور مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا،مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑے ہونا ہی آج میڈیا کا شیوہ بن چکاہے۔اسی طرح سے پولیس بھی

مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر جب کبھی ظلم ہوتاہے تو وہ اقلیتوں کی تائیدمیں کھڑے ہونے کے بجائے فرقہ پرستوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے اور ظلم ڈھانے کے جتنے طریقےہیں اُن طریقوں پر عمل کرناان کا اولین فرض بن جاتاہے۔پچھلے کئی سالوں سے ہم ان حالات میں ایک ہی بات سنتے آرہے ہیں کہ میڈیا مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے،میڈیامسلمانوں کی آواز نہیں بنتاہے، میڈیامسلمانوں کو ہی ٹارگیٹ کرتاہے،وہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلندکرتاہے اور اقلیتوں کو بدنام کرتاہے۔ایسے ہی پولیس پر بھی الزام لگایاجاتاہے کہ پولیس مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔بات یقیناً صد فیصد درست ہےکہ اس وقت بھارت کا میڈیا نہ مسلمانوں کے ساتھ ہے نہ ہی پولیس مسلمانوں کی پشت پناہی کرتی ہے کیونکہ جب پولیس اور میڈیامیں مسلمانوں کا ساتھ دینےوالے ہونہیں سکتے کیونکہ مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کیلئے بھی آج فرقہ پرست طاقتیں میڈیا کو عمل میں لارہے ہیں اورمیڈیا کا ساتھ دے رہےہیں۔آر ایس ایس ہویا پھریہودی طاقتیں یہ جان چکی ہیں کہ اگر توپ ہو تو مقابل تو تلواراٹھانے کے بجائے اخبارنکالناہے۔آج اسی سمت میں یہ لوگ کام کرتے کرتے اس قدر آگے آچکے ہیں کہ وہ باقاعدہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیاکو بڑھاوادے رہے ہیں۔لاکھوں کروڑ وں روپیوں میڈیاپر خرچ کررہے ہیں،وہ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ان کے لاکھوں کروڑوں روپیوں کے انوسٹمینٹ سے انہیں کیا پرافٹ ملے گا،بلکہ یہ لوگ اس بات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں کہ اس میڈیاکے ذریعے سے وہ کیسے راج کرسکتے ہیں ،حق کو ناحق اورناحق کو حق میں کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔انہیں میڈیاکے انوسٹمینٹ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،بلکہ وہ چاہیں تو اور بھی کئی میڈیا ہائوز اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کیلئے شروع کرسکتے ہیں۔مگر افسوس کامقام یہ ہے کہ مسلمان ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصرہےاور ان کے پاس میڈیا کو لیکرکوئی خاص یا مستقل ایجنڈا نہیں ہے۔اگر اُنہیں سچائی پیش کرنےوالابے باک اور بے خوف میڈیا بنانے کیلئے انوسٹمینٹ کرنے کیلئے کہاجاتاہےتو سب سے پہلا ان کا یہ سوال ہوتاہے کہ اس میں ریٹرن پرافٹ(Return Profit)کیاہوگا؟ اور انہیں کیا پوزیشن دی جائیگی؟یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ جو قوم اپنی حفاظتیں بھی صرف ثواب اور جنت کیلئے کرتی ہے وہ قوم کیابے فائدہ میڈیاکیلئے انوسٹمینٹ کریگی۔جب تک مسلمان فائدے اور نقصان کا حساب کرتے رہیں گے تو اُس وقت تک مسلمانوں کو ایسی ہی کچلا جاتارہے گا۔صرف میڈیاکی ہی نہیں بلکہ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے بھی بڑے پیمانے پر بنا سکتے ہیں ،لیکن وہاں بھی سوال یہ اٹھتاہے کہ اس میں ریٹرن بھی کتنے دنوں میں ملے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایسے میڈیا ہائوز کی تائید کریں جو سماج کو صحیح و غلط کی پہچان بتاتے ہیں،بے باک وبے خوف ہوکرلوگوں تک صحیح خبریں پہنچاتے ہیں۔اگر اب بھی مسلمان ان باتوں سے سبق نہیں سیکھتے ہیں تو ان کا مستقبل تاریکی میں ہی جائیگا،اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج شرپھیلانےوالے صحافیوں کو سنگھ پریوارجیسی تنظیمیں ہر طرح کی مددکررہے ہیں اور اُنہیں انعامات و اعزازت سے نوازتے ہیں۔وہیں دوسری جانب مسلمان اپنے ہی صحافیوں سے بد ظن ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کو عقل بولنےپر اُن کے گھر خالی کروانے کیلئے تیارہوجاتے ہیں۔وقت آگیاہے کہ مسلمان اپنی عقل کو لگائیں اورمیڈیاکو فروغ دیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو