نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دکنی زبان کی شان

Abstract

The name of Hyderabad, education and culture, the rest of the world, Osmania University, and the department of encyclopedia, science and literature, the world of knowledge, it is going to change the meaning of the world. When the world is a place, I want to use it as a vocal chord, especially for the heart and the dialect. This is the language of my country, my heart, my son, my mother, my father, my son, my wife, my mother, my mother, my husband, my husband, my husband, my husband, my husband and many thanks. What is the fault of the people of this world?

 یہ مانا کہ آج نہ وہ حیدرآبادی تہذیب و ثقافت باقی رہی نہ وہ جامعہ عثمانیہ اور نہ وہ دائرةالمعارف جہاں سے علم و ادب کے ایسے دریا رواں ہوئے کہ رہتی دنیا تک تشنگانِ اردو سیراب ہوتے رہیں گے۔ اِسکے باوجود دکن کی فضاؤں میں اردو اپنی بول چال کے ذریعے اپنے صدیوں پُرانے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ نہ صرف بغیر کسی ملاوٹ کے زندہ ہے بلکہ تابندہ ہے۔ جبکہ لکھنؤ اور دہلی کے باشندے جنہیں کبھی اپنی زبان پر ناز تھا آج سنسکرت اور ہندی کی ملاوٹ کی وجہ سے فکری قبض اور تہذیبی بدہضمی کا شکار ہوچکے ہیں۔ شائد اسی لیئے اہلِ دکن دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اپنے لب و لہجے کی بِنا آسانی سے پہچانے جاتے ہیں ۔ مختصر ترین الفاظ میں بڑے سے بڑے واقعہ کو بیان کردینا یہ صرف حیدرآبادیوں کا کمال ہے۔مثال کے طور پر جہاں ایک لکھنؤی کو کسی کار ایکسیڈنٹ کو بیان کرنے کیلیئے کئی جملے درکار ہوں گے وہاں ایک دکنی یوں کہے گا کہ : "گاڑی بیگن میں مِل گئی "۔ اِس میں گاڑی کا اُلٹنا پُلٹنا شیشوں کا ٹوٹنا اور دروازوں کا چَپکنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے ساری تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ حیدرآبادی گالیاں بھی اِتنی مختصر اور مہذّب ہوتی ہیں کہ نہ دوسروں کی طرح زبان آلودہ ہوتی ہے نہ وضو کو کوئی خطرہ ہوتا ہے جیسے " نِکل گیا کیا؟" یا "گُڑ ہے کیا" موسم کی خبریں آپ نے بہت سُنی ہونگی لیکن مختصر ترین الفاظ میں بارش کی تباہ کاریوں کا منظرجو ایک حیدرآبادی بیان کر سکتا ہے اُسکے لیے دوسروں کو کئی پیراگراف درکار ہوتے ہیں جیسے " وہ بّارش وہ بّارش وہ بّارش ٹرافکِ سترول ، روڈ پہ ایسے بڑے بڑے پوکّے، سائن بورڈ چندیاں، جگہ جگہ کُنٹے ، پوری برات پِنڈے میں مل گئی "۔ یہ ایسے محاورے ہیں جو کئی کئی تھکادینے والے جملوں کا نہ صرف نعم البدل ہوتے ہیں بلکہ میوزک کے ساتھ بھرپور تصویر کشی بھی کرتے ہیں جیسے "بھڑ بول کے دیا ، دھڑ بول کے گِرا ، زپّ بول کے اُٹھا ، گِرررررر بول کے بھاگا"۔ ایک Kidney specialistگردے کے ایک مریض کا x-ray دیکھ کر کہنے لگے : "پھتری انی پہ ہے۔ پانی خوب دبا کے پیتے رہو بُڑُق بول کے خودیچ گرتی "۔ یہ بُڑُق تو خیر ہم سمجھ گئے لیکن یہ دبا کے پینا کیا ہے یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے کئی بار دبا کے سوچاکہ حیدرآباد میں ہر فعل دبا کے کیوں ہوتا ہے اسکی تحقیق کی ضرورت ہے جیسے دبا کے بھوک لگ ری تھی ، دبا کے کھایا ، دبا کے پیا ، دبا کے رائٹ لیا، دبا کے 120 کی speed سے نکلا پھر left کو دبایا۔ دکنی زبان کی چاشنی کو مردوں سے زیادہ عورتوں نے بڑھایا ہے۔ اُجاڑ مٹّھی پڑو ، جو ہے سو ، اللہ آپ کو نیکی دے ، پیٹ ٹھنڈا رہو وغیرہ جیسے تکیہ کلام سالن میں کھٹّے کی طرح ہر جملے میں شامل رہتے ہیں۔ جب خواتین اپنی ساس یا نندوں بھاوجوں کے بارے میں کنایتاً محاورے داغتی ہیں وہ بہت دلچسپ ہوتے ہیں جیسے ندیدی کو ملی ساڑی تو حمام میں جا کے ناپی، چیل کا کھاناکم چِلّانا زیادہ ، کام نئیں سو کُکڑی کاجل پکڑی ، پیٹ میں پڑا دانا دھیڑ پڑا اُتانا ، دو پیسے کی ہنڈی گئی کُتیا کی ذات پہچانی گئی وغیرہ۔ اَنہی کے بارے میں غالباً غالب نے کہا تھا کہ اتنے شیریں ہیں اُسکے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا مردوں کے تکیے کلام بھی عورتوں سے کچھ کم نہیں ہوتے جیسے "میں بولا ایں۔۔۔اے لّگا میں بولا اری اس کی حیدرآبادیوں کو نہ جانے کیوں سالوں سے اتنی چِڑ ہوتی ہے کہ ہر گالی کیلئے وہ سالے کا شارٹ فارم "سلا" استعمال کرتے ہیں "سلا اپنے آپ کو کیا سمجھ را؟" "سلا ہر چیز مہنگی ہوگئی "سلا صبح سے موسم خراب ہے " حتّی کہ اگر اپنے آپ کو بھی کوسنا ہوتو سالے یا سالی کو درمیان میں گھسیٹ لاتے ہیں جیسے " سلی اپنی بیاڈ لک خراب ہے"۔ دوسری طرف کسی کی تعریف بھی کرینگے تو وہاں بھی سالے یا سالی کو درمیان میں کھینچ لائیں گے جیسے سلا کیا کھیلا سلی کیا اسمارٹ ہے یارو۔ ایسا نہیں ہے کہ حیدرآبادیوں کو سالوں سے دشمنی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہیکہ شادی کے بعدوہ جو سب سے پہلا کام کرتے ہیں وہ یہ کہ بیوی کو بلانے کے بعد سالے کے ویزا کے لیئے کفیلوں کے چکّر لگانا شروع کرتے ہیں اگر سعودی عرب یا دوبئی وغیرہ سے سالوں کو خروج لگادیا جائے تو پورے خلیج سے آدھے حیدرآبادی نکل جائیں گے۔ اکژ غیر حیدرآبادی تمسخرانہ طور پر دعوی کرتے ہیں کہ حیدرآبادیوں کے ساتھ رہ کر وہ حیدرآبادی اچّھی طرح سمجھنے لگے ہیں لیکن جب اُن سے اِن جملوں کے معنے پوچھے جائیں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں جیسے "پوٹّا بوڑی میں بنڈے بِھرکایا" "وستاد نقشہ فِٹ کردیئے" " تنبّی موچو " گھایاں نکّو، غچّپ رھو۔ ہمارا خیال ہیکہ یہ لوگ خوبانی کے میٹھے کو جب تک "خُربانی " کا میٹھا کہہ کر نہیں کھائیں گے حیدرآبادی زبان کی مِٹھاس انکو نہیں آ سکتی۔ کئیکو نکّو ہو جیسے الفاظ پر غیر حیدرآبادی اکثر یہ طعنہ زنی کرتے ہیں کہ اہلِ دکن نے اردو کو بگاڑ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔اردو حیدرآباد کی لاڈلی ہے محبت اور لاڑ میں عمران کو عِمّو اور اظہر کو اجّو کہنے کا حق صرف گھر والوں کا ہوتاہے۔ ہجرت کر کے پاکستان امریکہ یا یورپ جانے والوں کا سامنا جب مختلف زبانوں کے لوگوں سے ہوا تو وہ تکلّفاً خالص کتابی زبان بولنے پر مجبور ہوگئے۔ اسلئے انکی زبان میں تکلّف اور تصنّعartificiality ملے گی۔ لیکن اہلِ حیدرآباد کیلئے اردو انکی لاڈلی بیٹی ہے۔ حیدرآباد اردو کا اپنا گھر ہے اسلیئے یہاں بے ساختگی اور بے تکلّفی ملے گی۔ ہمارے خیال میں جو لوگ حیدرآبادیوں کو زبان اسلوب اور لہجہ بدلنے کی ترغیب دیتے ہیں وہ اُس دُم کٹی لومڑی کی طرح ہیں جسکی ایک بار دُم کٹ گئی تھی تو وہ شرمندگی مٹانے کیلئیے دوسری لومڑیوں کو بھی دُم کٹا لینے کی ترغیب دینے لگی۔ اب آئیے حیدرآبادی" پرسوں" پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے۔جس طرح قرآن جنّتیوں کے بارے میں کہتا ہیکہ انکو دنیا میں گزری ہوی زندگی ایک دن یا اس سے بھی کم کی لگے گی اسی طرح حیدرآبادیوں کے لیئے بھی مہینے سال بلکہ صدیاں بھی سِمٹ کر پرسوں میں سما جاتے ہیں۔ تاریخ مہینہ اور عیسوی انہیں یاد نہیں رہتے اسلئے پرسوں سے کام چلا لیتے ہیں۔ جیسے "پرسوں انڈیا آزاد ہوا"۔ "پرسوں کویت پر قبضہ ہوا تھا"۔ کئی لوگ ترجمہ در ترجمہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ جیسے بے فضول کا جھگڑا یعنے بہت ہی فضول جھگڑا ، لکس سوپ کا صابن ، آب زم زم کا پانی ، سنگِ مر مر کا پتھر ، شبِ برات کی رات ۔ بعض لوگ انگلش مکس کے ذریعے بیان کو سوپر لیٹیوکردیتے ہیں۔ جیسے " کیا سالِڈ بَریانی تھی باس فُل دبا کے تڑی دیا" ۔ "سالڈ نیند آری تھی دو گھنٹے فُل سو کے اُٹھا"۔ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ دو مسئلے ایسے ہیں جنکا حل ہونا مشکل ہے ایک ہے کشمیر کا مسئلہ اور دوسرا حرف ق کی ادائیگی کا مسئلہ۔ حیدرآبادی ق کو خ سے ادا کرتے ہیں اور پاکستانی ک سے۔ بیٹی کی شادی کی تقریب حیدرآبادیوں کیلئے تخریب ہے اور پاکستانیوں کیلئے تکریب۔ دکنی زبان کی مقبولیت میں شعروادب کا اہم رول رہا ہے اگرچہ کہ نثر میں کسی نے طبع آزمائی نہیں کی۔ واجدہ تبسم جیسے کچھ نثرنگار آگے آئے لیکن منٹو کے راستے پر چل کر فحش نگاری اور پھکّڑ پن کا شگار ہوگئے۔ جہاں تک دکنی شاعری کا تعلق ہے اس نے اردو کو ایک زندہ جاوید شاعری بخشی جسکا ثبوت عالمی مشاعروں سے ملتاہے۔ اندرونِ ہند ہو کہ کوئی انٹرنیشنل مشاعرہ جب تک نئیں بولے تو سنتے نئیں جیسے ضرب الامثال دینے والے دکنی شاعر نہ ہوں مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا۔ سلیمان خطیب ، غوث خوامخواہ ، گِلّی ، صائب میاں ، سرور ڈنڈا ، اعجاز حسین کھٹّا ، حمایت اللہ ، مصطفٰے علی بیگ وغیرہ نے دکنی زبان کی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کو ساری دنیا میں پھیلایا بلکہ اردو ادب کا ناقابلِ فراموش باب بنا دیا ۔ اِس میں ڈاکٹر مصطفےٰ کمال ایڈیٹر" شگوفہ" کی عظیم خدمات بھی نا قابلِ فراموش ہیں جنہوں 42 سالوں سے مسلسل پرچہ نکالتے ہوئے اردو طنز ومزاح کی تاریخ رقم کی ہے۔ آخر میں آیئے دکنی لب و لہجے اور محاورں سے بھرپور ، فنّی اعتبار سے کامل اردو ادب کی وہ شاہکار نظمیں جو سلیمان خطیب کے کلام میں ملتی ہیں ملاحظہ فرمایئے جو بظاہر مزاحیہ ہیں لیکن اُن بے شمار تلخ سچّایئوں کو بے نقاب کرتی ہیں جو بد قسمتی سے ایک مسلم معاشرے کا بھی حصّہ بن چکی ہیں۔ مثال کے طور پر ساس اور بہو کی روایتی رقابت جو ہندوستان اور پاکستان میں مشترکہ طور پر ہر ہر جگہ موجود ہے دکنی لب و لہجے میں اُسکی ایک تصویر دیکھیئے ۔ ساس بہو سے کہتی ہے : تیری عادت ہے ہات مارِنگی باتاں باتاں میں بات مارِنگی امّاں جیسی ہے ویسی بیٹی ہے پاواں پکڑے تو لات مارِنگی ہمیں چپ کیچ پاواں دھوتے ہیں بچّے سانپوں کے سانپ ہوتے ہیں تیرے لوگاں جو گھر کو آتے ہیں کس کے باوا کا کھانا کھاتے ہیں جھاڑو کاں کے اُجاڑ کنگالاں میرے بچّے کو سب ڈباتے ہیں نرم لوگاں کو سب لگڑتے ہیں مٹّھے بیراں میں کیڑے پڑتے ہیں منجے خنجر کی کاٹ بولی نا منجے کِڑ کھئی سو ناٹ بولی نا دِق کے مردوں کی کھاٹ بولی نا گُھڑ پو پھیکے سو ٹاٹ بولی نا منجے چپکیا سو چمبو بولی نا منجے تڑخیا سو بمبو بولی نا منجے دنیا کی کُٹنی سمجھی گے لال مرچیاں کی بکنی سمجھی گے منجے دمّہ کی دُھکنی سمجھی گے منجے پُھٹّی سو پُھکنی سمجھی گے مرد آنے دے پیٹھ پھوڑونگی تیری تربت بنا کے چھوڑونگی کِتّے جاتے ہیں تو بھی جانا گے آ کے قئے دس تجھے لِجانا گے پورے پیراں کے ہات جوڑونگی مِٹّھے گھوڑے بنا کو چھوڑونگی میرے دل کو سکون مل جیئنگا سُکّی ڈالی پو پھول کھل جئینگا اب بہو کا جواب ملاحظہ فرمایئے: باتیں کرتی ہو کِس طرح امّی بات ہیرا ہے بات موتی ہے بات ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے بات ہوتی ہے بات سینے کا داغ ہوتی ہے بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے بات خیرو ثواب ہوتی ہے بات قہر و عذاب ہوتی ہے بات برگِ گلاب ہوتی ہے بات تیغِ عتاب ہوتی ہے بات کہتے ہیں ربّ اَرِنی کو بات اُمّ الکتاب ہوتی ہے یہ نہ بھولو کہ تم بھی بیٹی ہو بیٹی ہر گھر کی اک امانت ہے اِک کی بیٹی جو گھر کو آتی ہے اپنی بیٹی بھی گھر سے جاتی ہے


یہ تحریر پنجند۔کام ویب سائٹ کے صفحے سے لی گئ ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period