نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُردونثر ابوالاعلیٰ مودودی کے حوالے سے


اُردونثر ابوالاعلیٰ مودودی کے حوالے سے


          اردوادب کواسکے مشہور و معروف اصناف تک محدود کردینا مناسب نہیں ہے بالخصوص نثر ۔افسانہ، ناول، ڈراما، انشائیہ اور تحقیق و تنقید وغیرہ اسکے اقسام ہیں۔ نثر میں ادب کے اعلیٰ و معیاری نمونے ان اصناف کے ماسوأ بھی پائے جاتےہیں۔ اور تاریخ ادب میں انکی اہمیت مسلم ہے۔  فلسفہ ہو کہ الہیات حتی کہ سیاسیات و معاشیات میں بھی ادبی اظہار خیال پایاجاتاہے۔ علم و ادب کا باہمی ربط آفاقی ہے۔ علمی تجربات ادب کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ دنیا کی ہر زبان میں جذبات و خیالات کا ابلاغ ہوتاہے۔ اور یہ اپنی تاثیر اس وقت قائم رکھ سکتاہے جبکہ وہ بہتر اسلوب میں ہو۔ احسن انداز بیان ہو۔ کوئی مبلغ یا مصلح بہتر مواد کے اکھٹا کرنے کے ساتھ ہئیت و اظہار کی تشکیل بھی ہم آہنگی کے ساتھ انجام نہ دے وہ اپنی مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے علمی مباحث اور ذرائع کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ ہیئت و اظہار گویا ایک ہی عمل کے دو نام بن جاتے ہیں۔ ادب کا دائرہ وسیع تر ہوجاتاہے۔ لہٰذا وہ تمام تحریریں جو افادیت سے مملوہوں ادب میں شامل ہوجاتی ہیں۔
          اردو زبان و ادب کے ارتقأ میں صوفیأ کرام کا بڑا حصہ رہاہے۔ رشدوہدایت اور تبلیغ دین کے لئے اردو کو ذریعہ بنایا جبکہ ملک میں فارسی و عربی کے علاوہ مقامی بولیوں کی آمزش سے اردو زبان تشکیل پارہی تھی۔ اسکے بعد میر امن سے لیکر رجب علی بیگ سرور تک اردو نثر میں افسانے لکھے گئے۔ انشاپردازکے نقوش غالب کے خطوط میں نمایاں ہیں۔ اردو ادب میں نثر کا آغاز تو سرسید سے ہوا ہے۔ انکی تحریریں اصلاح و انقلاب سے بھری پڑی ہیں۔ افکار کی وسعت و رفعت، سادگی وروانی انکی تحریروں میں ضرور ملیگی بلکہ اردو نثر کا اولین نمونہ سرسید کی تحریر ہے۔ لیکن بدرجۂ کمال استوار نہیں ہے۔ انکی ساختگی میں پرداختگی کی کمی ہے۔ البتہ ان کے ہم عصروں میں حاؔلی کی نثر ایک بہترین نمونہ ہے۔ سادگی و سلاست کے باوجود انگریزی الفاظ کا بیجا استعمال اور بکثرت عربی کے نانوس الفاظ کا ورود عبارت کو ثقیل بنادیتاہے۔ سرسید اور حالیؔ  دونوں نے اسلوب سے بڑھ کر بے تکلفی پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے۔
          محمد حسین آزاد کی آرائش عبارت نے تکلف وتصنع کی حدپار کرگئی انکی تحریروں سے شاعری کا انداز نمودار ہوتاہے۔ آزاد کو تمثیل نگاری کا بخار چڑھ گیاہے۔ اسلوب پرستی انسان کو طرز بیان میں کمزور کردیتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد بھی آرائش و محاورہ بندی کے دلدادہ ہیں۔ یوں تو نظیر احمد ایک افسانہ نگار ہیں۔ بامحاورہ زبان کو انہوں نے اسلوب سمجھ لیاہے۔ یہ طرز پرستی فصاحت و بلاغت کیلئے مائل بن جاتی ہے۔
          شبلی کی نثر میں اردو ادب سےفصاحت و بلاغت کا ایک اعلیٰ نمونہ و معیار قائم ہوا۔  انہوں نے بیش بہا تصانیف شستہ زبان میں پیش کیاہے۔ انکے خیالات میں حکیمانہ سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عربی و فارسی کے نامور عالم ہوتے ہوئے بھی عربی و فارسی کے ثقیل الفاظ سے گریز کرتے ہیں۔ انکی عبارت نہایت محکم و صاف ہوتی ہے۔ شبلی کا اسلوب بیان اردو ادب میں کامل نمونہ ہے۔ شبلی کے عالمانہ ادب نے دارالمصنفین کی راہ ہموار کی۔ انکے طرز پر لکھنے والوں کا ایک حلقہ بن گیا۔ سید سلیمان ندوی عبدالسلام ندوی وغیرہ نے اردو نثر میں صوفیا، علما، و مبلغین کے ورثے کو مکتب کی شکل دیدی جس سے وابستہ احباب نے وسیع پیمانے پر تصنیف و تالیف کی گرنقدر خدمات انجام دیں۔
          مولانا ابوالکلام آزاد کی طرز تحریر میں مختلف ادوار نظر آتے ہیں۔ شبلی نے جو معیار قائم کیاتھا اسکا تتبع ضرورکیا۔ لیکن ‘‘لسان الصدق’’ کے دور کی جو سادگی و بے تکلفی ہے وہ ‘‘الھلال’’ میں شوکت وثقالت میں بدل گئی ہے۔ البتہ ‘‘ترجمان القرآن’’ ‘‘غبار خاطر’’ دونوں میں سلاست جھلکتی ہے۔ مولانا آزاد کے نثر میں متانت کے ساتھ ظرافت کا عنصر بھی پایاجاتاہے۔ سنجیدگی کے ساتھ شگفتگی، انضباط کے ساتھ انبساط بھی پایاجاتاہے۔ یہ لوگ علم و ادب و معلومات کے بحر ذخار تھے۔
          انکے یہاں لسانی علوم کے انبار تھے۔ زبان و بیان کے اظہار پر قدرتِ کامل رکھتے تھے۔ شرقی علوم کے قاموس تھے۔ انہوں نے قدیم مغربی علوم کا عربی کے ذریعہ مطالعہ کیاتھا۔ انکی دینی حمیت نے اصلاح کے مقصد کو سامنے رکھا۔ انکے ادب میں اصلیت تھی۔ خلوص اور سلیقہ بھی۔ انہوں نے روایات میں اجتہاد کا رنگ تلاش کیا۔ چنانچہ اردو ایک علمی زبان بنکر ادب کے معیار کو پہنچ گئی۔ حاؔلی، شبلیؔ، محمد حسین آزاد، نذیر احمد، اور ابوالکلام آزاد سب کے اسلوب میں وہ روایت ملتی ہے جسکی بنیاد سرسید نے ڈالی تھی۔
          ابوالاعلیٰ مودودی بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہیں موروثی روایات میں ترقی و توسیع آپکی شان ہے۔ وہ دورِ حاضر کے عظیم مفکر رہے ہیں انکی فکر ہمہ گیر انقلابی اصلاح ہے۔ مغربی افکار و رجحانات پر تنقید کے ساتھ بہتر خیالات کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ آپکی تحریر علمی جدوجہد ہے۔ بلکہ ایک تحریک ہے۔ متنوع موضوعات پر آپ نے کتابیں تصنیف کیں اور وہ تمام تحریریں اردو میں ہیں۔ ان میں دینیات و اخلاقیات سیاسیات و معاشیات کے مسائل تک زیربحث ہیں۔ جنکے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ آپکو ہر طرح کے اسلوب اظہار پر کامل دسترس حاصل تھی۔ موجودی کی تحریروں میں سلجھاہوا اسلوب اور توازن نظر آتاہے۔ اردو فارسی عربی کے ساتھ انگریزی سے بھی گہری واقفیت ہے آپ نے مشرقی و مغربی علوم کا بالراست مطالعہ کیا۔ مودودی کا قلم واضح اور منظم نظر آتاہے۔ مضمرات کی تشریح صفائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ سلاست و صراحت دونوں آپ کے طرۂ امتیاز ہیں۔ اگر کسی جگہ کوئی دقیق لفظ آجائے تو اسکا سہل ترمترادف پیش کرتے ہیں۔
          آپ کی تحریروں کا دور اول  1920)  تا (1930  ہے۔ جسمیں آپکی معرکۃ آرا تصنیف ‘‘الجمادفی الاسلام’’ شائع ہوئی۔ اور وہ اپنے اسلوب کا اولین نقش کہلاتاہے۔
          وہ اپنی تحریروں میں مترادفات کے ذریعہ لطیف اضافہ پیش کرتے ہیں جس سے قاری کا ذہن مفہوم کی وسعت کی طرف راہ پاتاہے۔ آپ کے منتخب الفاظ و تراکیب موزوں جملوں سے عام و خاص دونوں برابر متفید ہوسکتے ہیں۔ اس کا مقصد عبارت آرائی نہیں ہے۔
          آپ کی تحریروں میں جملوں کا ارتباط۔ مقدمات کا لازمی نتیجہ اور منطقی زور پایا جاتاہے۔ جس سے تیقین کی فضا قائم ہوتی ہے۔  قاری کو حقائق سے آگہی و بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
          الغرض بیسویں صدی کا تیسرا دہا آپکی فضاحت و بلاغت کا آئینہ ہے۔ اور حالیؔ و شبلیؔ  کی روایت کے ادراک کی دلیل ہے۔
1930 سے 1950 تک مودودی کا دوسرا دور کہلاتاہے۔ جسمیں مودودی نے ‘‘ترجمان القرآن’’ علمی رسالے کے ذریعہ عالمی و آفاقی مسائل و سوالات کے جواب دئے۔ جنکو اردو دنیا میں بکثرت پڑھاگیا۔ اسی دور میں آپ نے اصلاح و تجدید کا وہ لائحہ عمل پیش کیا کہ آج بھی معتدبہ تعداد اس سے وابستہ ہے۔
          آپ کے گہرے اونچے معیاری ادب کے دور دوم میں ‘‘دینیات’’ اور ‘‘خطباب’’ ‘‘سود’’  ‘‘پردہ’’ جیسی کتابوں نے ماہرین و قائدین کو بھی دعوت فکر دیاہے۔ ان میں اردو نثر مزید شائستہ نظر آتی ہے۔ 1950 سے 1979 تک کا انیس سالہ تیسرا دور جسمیں صاحب طرز مصنف کی حیثیت سے شہرت کے بام فلک پر نظر آتے ہیں۔ تیسرے دور کی ابتدا سے انتہا تک فصاحت و بلاغت کے نمونے یکساں نمایاں نظر آتے ہیں۔
          اردو ادب کیلئے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات گرانقدر ہیں ۔ آپ کے تیسرے دور کا علمی و قلمی کارنامہ قرآن مجید کی ترجمانی ‘‘تفہیم القرآن’’ ہے۔  جو متعدد جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اردو دان بڑا طبقہ اس سے مستفید ہے۔ اسکی فصاحت و بلاغت اور لطافت مقبول عام ہے۔ آپ کی تحریر کی سبک رفتاری بے مثا ہے۔
          مودودی نے ارائے مفھوم پر زیادہ زور دیاہے۔ ان سے قبل شاہ عبدالقادر شاہ رفیع الدین کے ترجمے مستند ضرور تھے۔ وہ ایک ایسی قدیم اردو م یں تھے کہ پڑھنے والے کو مفہوم تک پہچنے میں دقت کا سامنا تھا۔ لہٰذا وہ تراجم اب شائع نہیں ہورہے ہیں۔ کافی حدتک معدوم ہوچکے ہیں۔  مولانا محمود حسن، مولانا اشرف علی تھانوی کے تراجم بھی آج کی شستہ زبان میں نہیں ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ میں اردو محاورات کی اتنی کثرت ہے کہ اس سے عربی محاورات کے مضمرات مجروح ہوجاتے ہیں۔
          حافظ فتح محمد جالندھری کا ترجمہ پامحاورہ ہونے کے ساتھ رواں بھی ہیں۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کے ترجمے میں قدیم و جدید دونوں اسالیب کی آمزش نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ‘‘ترجمہ قرآن’’ مذکورہ تراجم سے بہتر پایا جاتاہے۔  الغرض مودودی نے قرآن مجید کے مضامین عالیہ کو ادب کے معیاری اسلوب میں ادا کرکے علمی و ادبی کارنامے کی مثال قائم کردی۔ آپکی دانشوری نے ایک خاص اسلوب بیان و حکیمانہ خیالات کے اظہار کا ثبوت پیش کیاہے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو