نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ابن صفی کی کردار نگاری (2)

ابن صفی کی کردار نگاری (2)


ابن صفی کے قلم کا اعجاز ہے کہ انھوں نے جو بھی کردار صفحہ قرطاس پر بکھیرا جاوداں ہوگیا ۔کمال یہ کہ ایک کردار کی عادتیں ،جبلتیں، خصائل ۔۔فریدی ،عمران وغیرہم کے علاوہ منفی کردار بھی اگر مختلف ناولوں میں نظر آتے ہیں تو اسی حشر سامانیوں کے ساتھ ۔۔اسی انداز میں ۔۔مجال کہ سربمو جھول آجائے ۔۔تھریسیا بمبل ۔۔عمران کے ساتھ شکرال کے سفر میں ۔۔اور دیگر ناولوں میں ۔۔مخصوص فن کے ساتھ کہ پیروں میں پلا۔۔چاؤں چاؤں کررہا ہے ۔۔دشمن کی لمحہ بھر کی حیرت سے بازی پلٹ دینے والا حربہ ۔۔ابن صفی کی جدت طرازی کی تمثیل ۔۔۔سنگ ہی جیسے گرد میں اٹے۔۔زرد دنداں ،پچکے گال ،دراز قد۔۔طاقتور چینی بازار حسن کی سیر۔۔بھی کرتا ہے اور اس سے پٹتا بھی ہے ۔۔یہ دراصل ہر کردار کی ہمہ جہتی کو درشاتا ہے کہ ،

ہر آدمی میں رہتے ہیں دس بیس آدمی 

جیرالڈ شاستری ۔۔انگریز کے ساتھ ۔۔شاستری ؟۔۔ہے نا عجیب ۔۔مگر ابن صفی کے قلم نے انگریز بھی جیوتش بنادیا ۔۔اوہام پرستی پر بھی یہاں ابن صفی کا نشتر چلتا ۔

جیرالڈ شاستری ایسا کردار ۔۔۔جو کانوں سے چپکی ہوئی پگڑی پہنتا ہے ۔۔۔عجیب سی آنکھیں ۔۔کیا کردار وضع کیا ہے ابن صفی صاحب نے ۔۔موت کی چٹان و لاشوں کا آبشار ناول ذہن پر نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔۔ٹی اے جھوس ۔۔۔منحنی سا۔۔چارلی چپلن ٹائپ ۔۔

دولت کی ہوس۔۔خود سے بےگآنہ۔۔ایسے بیسیوں کردار ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں جنھیں ابن صفی کے قلم نے احاطہ تحریر میں لایا ہے ۔۔ہمپ دی گریٹ کو لے لو۔۔یا پھر ڈاکٹر ڈریڈ کو ۔۔۔شعلہ سیریز کا کردار جس نے کنول کو نفسیاتی مریضہ بنادیا ۔۔مڈونگا کو کون بھول پائے گا !!!۔۔ایک ایسے عہد میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی گھٹنوں کے بل چل رہی تھی ۔۔۔فولامی۔۔لاسلکی ٹرانسمیٹر ،۔۔زمین کے بادل میں اسپنچ نما اسپیکر ،دھویں کی تحریر ،فے گراف اور درجنوں ابن صفی کے زرخیز ذہن کی اپچ آج ہمارے درمیان موجود ہیں !!!۔۔ہے نا تعجّب خیز !!!

عمران کے کردار پر ہم ایک بار اور نظر ڈالیں تو حیرت کے در وا ہوتے ہیں ۔۔۔کہ بظاہر احمق، گاؤدی ،ہونق نظر آنے والا کتنا ذہین ہے ؟۔۔جو خود اعتراف کیا کرتا ہے کہ ،،میں انسلٹ پروف ہوں ،،۔۔ایسے کسی کے رویے کی پروا نہیں ۔۔وہ اقرار کرتا ہے کہ ،،میں پچھتا رہا ہوں کہ پیدا ہونے سے انکار کیوں نہ کر سکا!،، اس بات کی علامت ہے کہ اپنے اطراف میں پلتے جرائم کو دیکھ کر ۔۔نابرابری، ابن الوقتی، لاقانونیت ، سیاس قسم کے کرداروں کو دیکھ ۔۔وہ خیال کرتا ہے کہ سادہ لوحوں کے لیے یہاں جگہ نہیں ۔۔احمق بن کر اپنا کام نکالو۔۔اسی لیے اپنا کام نکالنے کے بعد لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے ۔۔ایسے ٹریٹ کرتا ہے کہ ۔۔جانتا نہیں (۔۔قارئین !۔یہ میرا تجزیہ ہے ۔متفق ہونا ضروری نہیں )

دوسرے عمران کے کردار کی خصوصیات کہ وہ مرتبہ کے لحاظ سے برتاؤ کرتا ہے ۔۔سلیمان کے ساتھ رویہ الگ ہے تو جوزف کے ساتھ الگ ،صفدر کے ،جولیا کے ،بلیک زیرو کے ،روشی کے ،جیمسن کے ۔۔سبھی کے ۔۔ان کرداروں کے جھرمٹ میں کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا ۔۔یہی کمال فن ہے !!


ڈاکٹر ارشاد خان


احباب ۔۔برسوں پہلے پڑھی ابن صفی کی تحاریر ۔۔یادداشت کی بنیاد پر خامہ فرسائی کی ہے ۔۔سہو تو براہ کرم نشاندہی کیجیے !! 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو